ستر اور اسی کی دہائی میں کینیڈا سرد ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا جب یہاں امیگرنٹس کی تعداد بہت تھوڑی تھی ان دہائیوں میں آنے والے پاکستانیوں سے جب ملاقات ہوتی ہے جب کہ وہ اپنی بھرپور جوانی میں یہاں آئے تھے اور اب بڑھاپے کی منزلیں طے کر رہے ہیں تو وہ بڑے شوق سے نئے آنے والے پاکستان کے باسیوں کو بتاتے ہیں کہ یہاں دور دور تک کسی پاکستانی کا وجود نہیں تھا بغیر ضروری کاغذات کے بھی کینیڈا میں آسانی سے امیگریشن مل جاتی تھی اور اگر میلوں دور کوئی اپنے دیس کا بندہ نظرآتا‘ تو بغیر تعارف کے دوڑ کر اس کے گلے لگ جانا معمول کی بات ہوتی تھی اور پھر رابطے گھروں تک پہنچ جاتے تھے اور اب بڑھاپے تک وہ رابطے مستقل آباد ہیں۔شمالی امریکہ بحراوقیانوس کی وجہ سے سال کے10 مہینے برف میں غرقاب رہتا تھا اس لئے باہر کے ممالک کے لوگ بھی یہاں آنے سے کتراتے تھے اتنے برف زدہ علاقوں میں رہنے کا مشکل ترین تصور گرم علاقوں کے لوگ نہیں کر سکتے تھے۔سنا ہے ان دنوں کینیڈا اپنی مشکل معاشی حالات سے گزر رہا تھا نہ تو زراعت کا وجود تھا اور نہ ہی صنعتیں چلانے کیلئے مزدور دستیاب ہوتے تھے۔ بھلا ہو غریب ممالک کے ابتر حالات کا کہ جہاں کی تعلیم یافتہ آبادی اور امیر طبقہ ملکی حالات میں کچھ بھی بہتری نہ آنے کی صورت میں مغربی ممالک کی طرف جانے کی بابت سوچنے لگا‘ اپنی آنے والی نسلوں کو سکون چین اور امن کے ساتھ رہنے کیلئے یقینا ان کے اباؤ اجداد نے اپنی جوانی میں بے پناہ مشقت کو گلے لگایا اور کینیڈا‘آسٹریلیا اور یورپ کے ممالک کی طرف نکل گئے‘ کینیڈا آنے والوں کی تعداد ان دنوں ہزاروں میں تھی اور اس ملک کی آزاد امیگرنٹ پالیسی کی بدولت دن بدن یہ تعداد بڑھتی گئی اور اب21ویں صدی میں یہ تعداد لاکھوں تک جاپہنچی ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی آبادی 15لاکھ سے زیادہ ہی ہے جب دو دہائیاں قبل میں نے کینیڈا کی امیگریشن لی اور یہاں سکونت پذیر ہوئی تو برف کے ایسے طوفان ان آنکھوں نے دیکھے جو چار دن
سے پہلے ختم نہیں ہوتے تھے۔ منفی40ڈگری تو بہت عام بات تھی اور محکمہ موسمیات کی طرف سے وارننگ جاری ہو جاتی تھی کہ اس منفی40 درجے کی سردی اور ٹھنڈی یخ ہوا کو ساتھ ملا کر منفی60 یا منفی 80درجے میں آپ اپنے ذمہ داری پر باہر نکلئے آپ کے جسم کا وہ حصہ جو ڈھکا ہوا نہیں ہے فریز ہو سکتا ہے تو ہر طرف ایسے انسان نظر آتے تھے جو خلا نوردوں کا لباس پہنے ہوئے چلتے پھرتے نظر آتے تھے گرم ٹوپی‘ ناک تک مفلر ہاتھوں میں گرم برفانی موسم کو برداشت کرنے والے داستانے اور گرم ترین لباس جو منفی درجوں کو سہہ سکے‘ کمر کے پیچھے اپنا اپنا بیگ پہنا جیسے یہاں کا کلچر تھا اس بیگ میں آپ کا پانی اور تھوڑا بہت کھانے کا سامان‘آپ کے پیسے اور چند ضروری اشیاء ہوتی تھیں یہ کلچر اب بھی موجود ہے تاکہ منفی درجوں کی سردی میں ہاتھ میں ایسی اشیاء موجود نہ ہوں جن کی آپ کو ضرورت پڑتی ہے۔ برف کے یہ طوفان اپنے اندر نہ صرف ظاہری طورپر تباہیاں لاتے تھے بلکہ نفسیاتی طور پر بھی ان لوگوں کیلئے بڑی مایوسیاں اور ذہنی تناؤ کا باعث بنتے تھے اور بنتے ہیں جو کہ اس ماحولیاتی تبدیلیوں کے متحمل نہیں ہوتے اور کئی لحاظ سے صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتے تھے۔ آج بیس تیس سال گزرنے کے بعد کینیڈا کے شہروں کی آبادی اس قدر زیادہ ہوگئی ہیں کہ وہی کینیڈا جس کو معاشی مسائل کیلئے ہر وقت ہی امریکہ پر انحصار کرنا پڑتا تھا اب معاشی طور پر مضبوط ملک ہے اس کے کارخانے تین شفٹوں میں چلتے ہیں اسکی پیداوار ایکسپورٹ امپورٹ میں ہزار فیصد تک
اضافہ ہو چکا ہے اور وہ جی سیون ممالک میں بڑے فخر سے کہتا ہے کہ آج میرا مزدور دنیا کا سب سے تعلیم یافتہ شخص ہے‘ یہ بحث کہ اس کامزدور دنیا کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شخص کیسے ہے بڑی درد ناک اور فکر انگیز کہانی سناتی ہے بات سردی سے شروع ہوتی ہے آج جبکہ یہ کالم میں آپ کیلئے لکھ رہی ہوں باہر منفی28ٹمپریچرہے‘ بعض مشرقی علاقوں میں منفی چوالیس سے منفی پچاس تک ہے گو کہ آبادیوں کی زیادتی نے بحراوقیانوس کو بھی برف گرانے سے کسی حد تک روک دیا ہے جنگلوں کی کٹائی اور مکانات کی بھرمار نے برف کے طوفانوں کو سکڑ دیا ہے برف پڑنے والے مہینے کم ہو کر تین رہ گئے ہیں لوگوں کے مسائل یعنی امیگرنٹس کے مسائل لاینحل ہو چکے ہیں لیکن امیگرنٹس کی تعلیم‘ دولت اور توانائی سے فائدے اٹھانے والے امیگرنٹس کے آنے سے ذرا بھی پریشان نہیں ہوئے ان کے خزانے بھر رہے ہیں‘ تکالیف‘ مشکلات‘ پریشانیاں جن کی ہیں ان کے اپنے ممالک کے حالات اب ان کو واپس جانے سے روکتے ہیں اک ایسی منزل جو منزل نہیں ہے بلکہ منزل نما اک پناہ گاہ ہے جہاں زندگیوں کے فیصلے کرنا بڑے دشوار ہو جاتے ہیں اور وہ جنہوں نے اپنی جوانی اپنی آنے والی اولاد کیلئے گنوا دی‘ اپنی خوشیاں جو رشتہ داروں اور دوستوں کے جھرمٹ میں ہنستے ہوئے گزرانی تھیں کمائیاں کرتے ہوئے ٹیکس بھرتے ہوئے یخ بستہ سردیاں سہتے ہوئے گزر گئیں ہیں اولادیں‘ ان سب مشقتوں کو ماننے سے انکاری ہیں آرام سے ماں باپ کے مشکل بھرے دنوں کی کمائی سے خریدے ہوئے گھروں میں عیش کرتے ہیں اور اپنے آبائی وطن اور ماں باپ کو بھی اپنا کہنے سے گریزاں ہیں امیگریشن فائدوں کے ساتھ ساتھ ایسے ایسے گھمبیر مسائل تو بھی جنم دیتی ہے جس کا ادراک ایک پوری زندگی کو بتا دینے کے بعد ہی ہوتا ہے لیکن یہ وقت ہوتا ہے جب جانے کا وقت ہوتا ہے اور مزید تجربات کرنے کیلئے آپ کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے۔