وہ رنگت میں سانولی تھی اور صاف دکھتا تھا کہ وہ رنگ اور نسل میں گوری لڑکیوں سے مختلف ہے کلاس کی لڑکیاں اس کو اپنے درمیان بیٹھا ہوا اس لئے قبول نہ کرتی تھیں کہ وہ گوری نہیں ہے لڑکیوں کا ایک بڑا گروپ اس کو ہمیشہ اپنے مذاق کا ایسا نشانہ بناتا کہ جس سے تضحیک کا پہلو بہت نمایاں ہوتا تھا اکثر اس کے بالوں میں چیونگم ایسے چپکا دی جاتی کہ وہ ال اس کو کاٹنا پڑ جاتے تھے آوازیں کسنا روز کا معمول تھا۔ کندھامارکر اور ٹانگ آڑا کر اس کو اس طرح دھکا دیا جاتا کہ رینا کا گرنا لازمی ہو جاتا یہ سلسلہ پرائمری سکول سے شروع ہو کر ہائی سکول تک جاری ہی رہا اور آخر ایک دن ایسا دل دوز آ گیا کہ جس نے رینا کی زندگی کا چراغ بجھا دیا۔ 16 سال کی گوری اونچے لمبے قد کی سرغنہ لڑکی نے ایک تنہا سڑک پر ویران ندی کے پاس کچھ اور لڑکیوں کے ساتھ رینا کو پکڑ لیا پہلے کو اسے دھکے دیئے بعد میں اس کو ندی میں گرانے میں کامیاب ہو گئیں۔ یہ برٹش کولمبیا کے سب سے مشہور شہر وکٹوریہ کا ایک مشہور زمانہ پل کریک فلاور تھا۔اس کے دامن میں یہ شور کرتی ہوئی ندی بہتی تھی رینا نے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن زور آور لڑکی کیلی ایلورڈ نے باہر نکلنے کی اس کی ہر کوشش ناکام بنا دی اور وہ پھر زندگی کی ڈوری ہار بیٹھی اور مر گئی۔کیلی ایلورڈ کو پولیس نے پکڑ لیا اور اس کو بعد میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ یوں کینیڈا میں رہنے والے ہزاروں لاکھوں بچوں میں رینا واک بھی شامل ہو گئی جن کو روزانہ پرائمری اور ہائی سکولوں میں بلی (Bully) کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وکٹوریہ میں ہونے والا یہ قتل بین الاقوامی خبروں کی سرخی بنا لوگوں نے اصرار کیا کہ جس پل کے نیچے رینا کا قتل ہوا تھا اس کا نام رینا پل رکھ دیا جائے لیکن سمن اور منجیت نے اپنی پیاری بیٹی کی موت کو ایک پل کی حد تک سمٹ جانے کی اجازت نہ دی سمن واک اور من جیت واک نے یہ صدمہ آنسوؤں سے پی لیا اور بلی کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا من جیت واک نے اپنی بیٹی کے دکھ میں کتاب لکھی ”رینا اے فادر سٹوری“ لکھی اور سمن نے
قومی اور علاقائی سطح پر سکول کے بچوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے آرگنائزیشن بنائی سمن واک نے کہا میں اپنی بیٹی کو زندہ رکھونگی اس نے ملک کے کونے کونے میں پھر کر سکولوں میں یوتھ کیمپوں میں بچوں کے ساتھ کرمنالوجی کی کلاسز کے ذریعے Bully سے آگاہ کیا کہ جب آپ کو آپ کے ساتھی بچے تنگ کریں۔ ماریں۔زچ کریں۔گالی دیں تو پھر اس کو مت چھپاؤ اپنے ماں باپ کو بتاؤ اپنے ٹیچر کو بتاؤ اپنے وائس پرنسپل، کونسلر، پرنسپل اور پولیس کو بتاؤ ایک ویڈیو کلپ میں سمن واک کہتی ہے میری بیٹی دوستی کرنا چاہتی تھی لیکن کچھ ایسے خود غرض متعصب اور چالاک بچے تھے جو ہر وقت اس کا مذاق اڑاتے تھے وہ جب بھی سکول سے آتی پریشان رہتی۔ سمن واک اپنی پر امید باتوں سے تمام طالب علموں کو بلی کے اس کلچر کو تبدیل کرنے کا سبق پڑھاتی رہی۔ اکثر پولیس ڈیپارٹمنٹ کے کلب سکولوں کے لئے اس کی تقاریر کا اہتمام کرتے وہ ہمیشہ معاف کرنے کی بات کرتی اور پریشانیوں کو چھوڑ کرآگے بڑھ جانے کی بات کرتی۔ وہ غم کو مثبت انداز سے تبدیل کرنے کا درس دیتی وہ بچوں کو ان کے سکول کے جمنازیم میں اکٹھا کرکے مخاطب کرتی اور کہتی چپ نہ رہو بوبو‘ بولو اپنی آواز بڑوں تک پہنچاؤ اورسمن واک کے سامنے ایک دن وہ بھی آیا جب 2007 میں Bully کی سزا یافتہ مجرم بچی ایک دن کی ضمانت پر آنسوؤں اور ہچکیوں کے ساتھ سمن واک کے بازؤں میں رہ رہی تھی اس نے بتایا وہ غصے سے بھری ہوئی ایک لڑکی تھی ہر وقت منفی انداز میں سوچا کرتی تھی اس وقت سمن واک نے کہا آج میں ایک نوجوان کو اپنے
غلط قدم کو سیدھانے کے کوشش کرتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ سمن واک58 سال کی عمر تک اپنی بیٹی کے موت کے دکھ میں مثبت انداز میں زندہ رہنے کی کوشش کرتی رہی اور اسی مہینے اس کا انتقال ایک حادثے میں ہوا۔لوگوں نے اسکی موت کی خبر کو غم اور دکھ کے ساتھ سنا وہ کئی طالب علموں کے دلوں کی دھڑکن تھی اور ان کی جان بچانے کا موجب بنی۔ آپ کے ذہن میں ضرور یہ خیال آ رہا ہو گا کہ Bully بلی) کس کو کہتے ہیں بلی کا مطلب ہے طاقت کا استعمال۔ گالیاں۔ غصہ۔ دوسروں کے اوپر حاوی ہونے کی کوشش کرنا ذہنی تشدد کرنا‘ کمزور پر ظلم کرنا اپنے سے کم عمر پر رعب جمانا‘ بار بار شرمندہ کرنا۔ اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنا اور دوسروں کو کمتر سمجھنا اپے آپ کو برتر سمجھتے ہوئے دوسرے کو حقیر جانا کسی ایک انسان کو آتے جاتے ٹارگٹ بنانا مسلسل کو سنے دینا تنگ کرنا۔ اذیت دینا اور خوشی محسوس کرنا“ نسل پرستی رنگ کی بنیاد پر برتری کا شکار ہونا‘‘ اپنی بدن بولی سے دوسروں کو اذیت دینا یہ بلی انفرادی اور گروپ کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ مغرب کے سکولوں میں یہ ایک عام وباء ہے بڑی کلاسوں کے بچے چھوٹی عمر کے بچوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں آن لائن بلی کا رواج بھی بڑھتا جا رہا ہے۔بچے کبھی کھبار خودکشی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں بلی Bully) میں تین طرح سے لوگ یا بچے یا طالب علم شامل ہوتے ہیں جوبلی یااس اذیت کاشکار ہوتے ہیں وہ جو اذیت دیتے ہیں اور وہ جو اس اذیت یا تکلیف کے گواہ ہوتے ہیں سکولوں میں بچے دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر ہنستے ہیں خوش ہوتے ہیں یا پھر اس سارے تکلیف دہ عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور یا پھر اس میں خود بھی شامل ہو جاتے ہیں کچھ طالب علم غیر جانبدار رہتے ہیں کچھ بچے مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ کیسے مدد کریں۔ وہ خوفزدہ ہوتے ہیں مغرب کے سکولوں میں بلی کاشکار بچوں کی تعداد70 فیصد تک پہنچ چکی ہے جب تک والدین اساتذہ یا پولیس کو خبر ملتی ہے بات بہت دور تک جا نکلتی ہے۔