وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تخلیق کاروں کی ریٹائرمنٹ‘ اموات اور کمرشل ازم کے آجانے سے دنیا کے ہر شعبے کی طرح فلم انڈسٹری میں واضح طورپر کلاسیکی پن کی بتدریج کمی دیکھنے میں آتی گئی اب گانے سننے کی بجائے دیکھنے کی چیز بن کر رہ گئے ہیں۔ فلموں میں رسم و رواج کی مضبوطی پر کاٹا لگا دیا گیا ہے ثقافت کو کسی کشتی میں بٹھا کر میزائل سے سمندر میں ڈبو دیا گیا ہے‘ تقسیم کے50‘60 سال بعد ہی ایسی فلمیں بننا شروع ہوگئیں جو پیسہ کمانے کی ایسی مشین بن گئیں جن میں وہ کچھ بھی نہیں رہا جو ایک معاشرے کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے‘۔اسی طرح جب پاکستان کا وجود ہوا تو فلم انڈسٹری میں اقدار و ثقافت کی ترویج کے اصول و ضوابط کو کارفرما رکھا گیا اور ایسی لاجواب فلمیں بنائیں گئیں اور ایسے گیت اور ایسی شاعری کی گئی کہ محسوس نہ ہوا کہ یہ ایک نوزائدہ ملک کی فلم انڈسٹری ہے۔افسوس وقت گزرنے کے ساتھ دنیا کے ہر شعبے میں قحط الرجال کا سامنا کرنا دیکھنے کو مل رہا ہے وہ لوگ وہ نام‘ وہ شاعر‘ وہ گلوکار کہ جن کو تخلیق کاری میں ملکہ حاصل تھا آہستہ آہستہ دنیا چھوڑ گئے اور ان کی جگہ لینے والے وہ نہ تھے جو ہونا چاہئے تھے اور فنون کی موت بتدریج شروع ہوگئی اس طرح جب ریڈیو پاکستان کا وجود پاکستان بننے کے بعد ہوا تو ایسے بڑے بڑے نام تخلیق کاروں کی فہرست میں موجود تھے کہ جنہوں نے اپنے خون سے ریڈیو پرگراموں کی آبیاری کی۔ ایسی موسیقی تخلیق ہوتی کہ جسکو بعد میں ٹیلی ویژن نے اپنے تخلیق سے موسوم کرلیا‘ ایسے ڈرامے‘ انٹرویوز‘ ڈاکومنٹریز کہ معاشرے کو جوڑنے میں ایک اہم کردار ریڈیو پاکستان کا بھی تھا اور پھر تخلیق کار ریٹائر ہوئے گئے نئے آنے والوں نے جگہ تو پرکی لیکن اس معیار کو پوری طرح برقرار نہ رکھ سکے۔ اور آنے والے سالوں میں یہ کمی اتنی شدت سے پھیلی کہ ہر خاص و عام کو اس کا احساس ہونے لگا۔پاکستان ٹیلی ویژن کا وجود آیا تو زیادہ تر ریڈیو پاکستان کے اعلیٰ ترین تخلیق کاروں نے بڑھ چڑھ کر پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگراموں کو آگے بڑھ کر اپنا خون پسینہ پیش کردیا جس کا اعتراف ہر کوئی کرتا نظر آیا۔ اسی طرح پھر پی ٹی وی نے اپنے کریڈٹ میں ایسے ڈراموں‘ ایسی موسیقی، ایسے لکھاریوں اور ایسے ہدایتکاروں و پروڈیوسرز کی آبیاری کی کہ جن کا نام اور جن کا کام آج تک بھی زندہ ہے اور پھر یہاں بھی وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تخلیق کاری کا کام متاثر ہوا، یہ میں صرف فلم، ریڈیو اور ٹی وی کی با ت نہیں کررہی یعنی تخلیق کاری کی کمی کا یہ سلسلہ کسی ایک شعبہ زندگی تک محدود نہیں رہا بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ماضی کے مقابلے میں تخلیقی کاموں کا معیار متاثر نظر آیا ہے۔ ایک لفظ سنتے آتے تھے قحط الرجال‘ بڑامشکل محسوس ہوتا تھا یہ کیا ہے لیکن اب زندگی کی اس سرپہر میں احساس ہوتا ہے رجال کا قحط تو سوسائٹی کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبتا ہے چاہے وہ سوسائٹی مشرق کی ہو یا مغرب کی ہی کیوں نہ ہو۔
اشتہار
مقبول خبریں
اسپین کا خوبصورت شہر سویا
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محلہ جوگن شاہ سے کوپن ہیگن تک کی لائبریری
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
درختوں کا کرب
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
ہالینڈ کی ملکہ اور ان کی پاکستانی دوست
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو