موٹاپا اور دیگر روزمرہ کی بیماریاں اب بہت سے ممالک کے لئے ایک خاموش طویل مدتی چیلنج بنتی جارہی ہیں کیونکہ یوں حکومتوں کو لوگوں کی بیماری کے باعث صحت اور پیداوار کے شعبے میں بھاری نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔لیکن صرف جزوی قانون سازی سے صحت عامہ کے شعبے میں بہتری نہیں آئے گی بلکہ حکومتوں کو تعلیم و آگاہی اور صحت مند خوراک تک ان کی رسائی کو آسان بناکر قومی سطح پر لوگوں کی طرزِ زندگی میں تبدیلی لانی چاہئے۔حال ہی میں 98 ہزار چینی شہریوں پر کی گئی ایک تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں بحث کی گئی ہے کہ موٹاپے کو امیری سے جوڑنا بہت سطحی سی بات ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ غذائی رجحانات میں موجود جغرافیائی تغیرات، صحت عامہ میں موجود فرق کو بیان کرتے ہیں۔ایشیا-پیسیفک خطے میں ہر 5 میں سے 2 افراد کا یا تو وزن زیادہ ہے یا پھر وہ موٹاپے کا شکار ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ عالمی ادارہِ صحت کے محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ذیابطیس کا شکار عالمی آبادی کا تقریبا ًنصف حصہ ایشیائی ممالک میں مقیم ہے۔موٹاپے کے باعث ایشیا-پیسفک خطے میں ممالک کے قومی خزانے کو سالانہ 166 ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ جنوب-وسطی ایشیا کے ممالک میں موٹاپے اور اس سے منسلک بیماریوں کے باعث حکومتوں کو صحت کی سہولیات اور پیداوار میں نقصان کی مد میں بھاری لاگت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ انڈونیشیا ہر سال 2 سے 4 ارب ڈالر، ملائیشیا 1 سے 2 ارب ڈالر اور سنگاپور 40 کروڑ ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرتا ہے۔نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کی 2015 کی ایک تحقیق کے مطابق 1980 سے 2015 کے درمیان بھارت کے مردوں میں موٹاپے کی شرح میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ چین میں موٹاپے کا شکار افراد کی تعداد 11 کروڑ ہے جبکہ 2040 تک یہ تعداد 15 کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے۔ دیکھا جائے تو 1980 سے 2015 کے دوران ان ممالک میں موٹاپے کی شرح میں 15 گنا اضافہ ہوا ہے۔2005 اور 2015 کے دوران دل کے امراض، فالج اور ذیابطیس کے باعث چین کی قومی آمدنی کو ہونے والے سالانہ نقصان میں 7 گنا جبکہ بھارت کی قومی آمدنی کو ہونے والے سالانہ نقصان میں 6 گنا اضافہ ہوا۔بچوں کی صحت کے متعلق اعداد و شمار تو مزید خوفناک تصویر پیش کررہے ہیں۔موٹاپے کے اس بڑھتے ہوئے رجحان میں بہت سے عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔ ان عوامل میں جسمانی ورزش کی کمی، نوجوانوں میں کمپیوٹر گیمنگ اور اس جیسی سرگرمیوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور جامعات کے داخلہ امتحانات کی پڑھائی پر زیادہ وقت لگانا شامل ہیں۔ایشیائی ممالک کی حکومتوں کے پاس موٹاپے کا مقابلہ کرنے کے لئے متعدد حکمتِ عملیاں ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک کی حکومتوں نے کولڈ ڈرنکس اور میٹھے مشروبات پر ٹیکس عائد کیا ہے‘ ریاست کیلی فورنیا کا شہر برکلے جہاں زیادہ آمدنی والے اور تعلیم یافتہ لوگ رہائش پذیر ہیں وہ پہلا امریکی شہر تھا جہاں نومبر 2014 میں ہی میٹھے مشروبات پر ٹیکس عائد کردیا گیا تھا۔ جریدے پی ایل او ایس میڈیسن کی تحقیق کے مطابق ٹیکس کے نفاذ کے ایک سال کے دوران برکلے میں ان مشروبات کی فروخت میں 10 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جبکہ اس ٹیکس سے محصولات میں 14 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں سوڈا کے استعمال میں کمی آئی ہے جبکہ ایشیا میں اس کی مارکیٹ میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ملائیشیا کو قومی سطح پر موٹاپے کی شرح میں سنگین اضافے کا سامنا ہے۔ یہ ملک ان مشروبات پر ٹیکس لگانے کے حوالے سے میکسیکو کی حکمتِ عملی کو اپنا رہا ہے۔ برونائی نے اپریل 2017 میں میٹھے مشروبات پر ٹیکس متعارف کروایا اور فلپائن کی سینیٹ میں بھی اب شکر سے بنے مشروبات پر ایکسائز ٹیکس لگانے کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ تھائی لینڈ میں ستمبر 2017 میں شکر سے بنے مشروبات پر ٹیکس لیوی عائد کی تھی اور آئندہ 6 سالوں کے دوران اس میں اضافہ کیا جائے گا۔دنیا کے مختلف شہروں میں میٹھے مشروبات پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ نہیں۔ ٹیکس لگانے کے رجحان کے پیچھے چند وجوہات ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی تحقیق کے مطابق میٹھے مشروبات پر 20 فیصد ٹیکس لگانے سے زائد وزن اور موٹاپے کی شرح میں 3 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی کا سب سے زیادہ اثر دیہی علاقوں میں مقیم نوجوان مردوں میں دیکھا گیا۔تحقیق کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انسانی صحت پر عمر بھر پڑنے والے صحت کے اثرات سے متعلق طویل المدتی مطالعات کی ضرورت ہے۔