سعودی عرب عمرہ کرنے کی سعادت حاصل کرنے کیلئے جانا کسی بھی نعمت سے کم نہیں ہے‘ مسلمان ہمیشہ بیت اللہ کی زیارت کی خواہش رکھتے ہیں اور ان کی دعاؤں میں بیت اللہ کا طواف کرنے کی خواہش آرزو اور دعا اٹھے ہوئے ہاتھوں میں شامل ہوتی ہے ہم مسلمانوں کا شدت سے یہ عقیدہ ہے کہ اللہ جس کو چاہے بلا لیتا ہے چاہے اس کے پاس دولت کی کمی ہی کیوں نہ ہو‘ وہ مسبب الاسباب خود ہی اس کا انتظام و انصرام کر دیتا ہے‘ اگرچہ حج اور عمرہ دولت صحت اور حیثیت کی عبادت ہے لیکن جب اللہ کا حکم ہو تو حاضری لگنے کی باری ضرور آجاتی ہے‘ اگرچہ میں پہلے بھی2011ء میں عمرہ کرچکی تھی لیکن اللہ نے اپنے خاص کرم سے جب بلانا چاہا تو پھر صرف8دن کی بات تھی‘ منہ سے خواہش کا اظہار کیا کرنا تھا کہ جیسے فاصلے طے ہوتے گئے اور مجھے لگا جیسے میں اڑ رہی ہوں‘ جہاز تو اڑتا ہی ہے لیکن خود کو بھی انسان/مسلمان ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرتا ہے‘ ہوٹل میں سامان رکھنے کے بعد ہماری اولین آرزو سب سے پہلے عمرہ کی ادائیگی ہے کیونکہ ہم احرام اور عمرہ کی نیت کے اندر ہیں اگرچہ36 گھنٹے کے ہوائی سفر اور ٹرانزٹ کی مشکلات ہم برداشت کرتے چلے آرہے ہیں میرا بیٹا تو نوجوان ہے ماشاء اللہ لیکن میں اب عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں توانائی اور صحت بہت حد تک متاثر ہوجاتی ہے‘ لیکن مجھے خود اپنے بیٹے سے زیادہ جوش اور جذبہ محسوس ہو رہا ہے ایک ایسی سرشاری جس کو میں الفاظ میں شاید بیان نہ کر سکوں گی‘ ہم دونوں ہوٹل کی لفٹ سے نیچے اترے‘ سعودی بادشاہوں کی طرف سے حاجیوں کیلئے انتظام تو قابل تعریف ہے‘ لفٹ آتی بڑی ہے کہ50/40 لوگوں سے زیادہ حاجی اس میں سما سکتے ہیں‘ تاہم یہ ایریا کئی لفٹوں (Lifts) پر مشتمل ہے سب مسلمان‘ سب اللہ کے گھر کو دیکھنے کیلئے آنے والے‘ سب کے سب اللہ کے متوالے‘ کوئی احرام میں اور کوئی سادہ کپڑوں میں‘ خواتین عبایوں میں‘ کسی کا چہرہ کھلا تو کسی کا چھپا ہوا‘ حرم کے آس پاس اک ایسی دنیا آباد ہے جس کو اللہ والوں کی دنیا کہا جا سکتا ہے‘ میرے بیٹے کی عمرہ کرنے کی پہلی سعادت ہے اور اگرچہ میرے لئے اللہ نے یہ موقع دوسری دفعہ فراہم کیا ہے لیکن دل کی دھڑکنیں میری بھی بے ترتیب ہیں‘ نہ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے‘ کہ اللہ کے گھر کے سامنے جانے کیلئے شرمندگی اور سرشاری کے جذبات بیک وقت چل رہے ہوتے ہیں‘ ہم نے پہلے سے آن لائن اپنا عمرہ کرنے کا وقت سعودی انتظامیہ سے لیا ہوا ہے‘ باب الفہد اب وہ واحد دروازہ ہے جہاں احرام زیب تن کئے ہوئے لوگ عمرہ ادائیگی کیلئے داخل ہوتے ہیں جن کے تن پر احرام موجود نہ ہوں ان کو باب الفہد کے علاوہ دوسرے کئی داخلی راستوں سے جانے کی اجازت ہوتی ہے اس کا مقصد پہلی دفعہ عمرہ کرنے والوں کو فوقیت دینا ہوتا ہے اور نماز پڑھنے والے اوپر کی منازل پر جاتے ہیں‘ صفائی ستھرائی حرم کے علاقے میں بہت زیادہ ہے مسلمان خود بھی خیال رکھتے ہیں‘ اور حکومت وقت کی طرف سے ہزاروں ملازمین ہمہ وقت حرم کے باہر اور حرم کے اندر اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں‘ ان میں خواتین اور مرد دونوں شامل ہوتے ہیں‘ ان کے خاص یونیفارم ہوتے ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں‘ باب الفہد کے داخلی راستے پر انتظامیہ کے کچھ لوگ موجود ہیں جو آپ کے فون میں وقت کا وہ پیغام دیکھتے ہیں جو انتظامیہ نے آپ کو دے رکھا ہے آپ کو یاد ہوگا کہ جب ہم جدہ ائرپورٹ پر اترے تھے تو ہم نے اپنے لئے رات کے دو بجے سے فجر تک کا وقت لے رکھا ہے‘ ہم دونوں نے اپنے چپل اتار کر اپنے پیچھے لٹکائے ہوئے بیگ میں رکھ لئے‘ اگرچہ حرم کے اندر جوتوں کے ریک موجود ہوتے ہیں لیکن کسی بھی مشکل میں نہ پڑنے کے خیال سے چپل اپنے پاس ہی رکھنا چاہئے باب الفہد وہ دروازہ ہے جہاں سے خانہ کعبہ پوری طرح نظر آتا ہے‘ کہا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے‘ اگرچہ بعد میں بھی تمام دعائیں قبول ہوتی ہیں کیونکہ یہ تو عظیم جگہ اللہ کا گھر ہے ہی قبولیت کا مسکن‘ ہم نے آنکھیں نیچی کی ہوئی ہیں اور اپنے پیروں پر/حرم کے فرش پر نظریں جمائے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں مقصد یہ ہے کہ بیت اللہ پوری طرح ہماری آنکھوں کے راستے میں آجائے تو ہی ہم اپنی آنکھیں اوپر کریں اور دعائیں مانگیں‘ میں نے محسوس کیا ہمارے ہاتھ کانپ رہے ہیں‘ اک خوشی‘ ایک سرشاری‘ اور خوف و ڈر ہم پر طاری ہے‘ راستے میں کئی سیڑھیاں ہیں جو اتنی چوڑائی میں ہیں کہ بیک وقت کئی لوگ ایک ساتھ نیچے بیت اللہ کے صحن میں اتر سکتے ہیں مجھے علم ہے کہ ہم بیت اللہ کے سامنے پہنچ گئے ہیں اور ہم دونوں ایک کونے میں کھڑے ہوگئے اور اپنی آنکھیں اوپر کیں‘ شان و شوکت کا منبع ہمارے سامنے ہے‘ خانہ کعبہ کو دیکھ کر عجیب ہیبت اور کبریائی کا شدت سے احساس ابھر کر آتا ہے‘ دل ہے کہ دھڑک کر باہر آجانے کو بے تاب ہے‘ دعائیں کب کی بھول بھال گئی ہوں‘ لب ہل رہے ہیں اور تمام طلب گاریاں گڈمڈ ہوگئی ہیں‘ کون سی دعا پہلے مانگنی تھی اور کون سی بعد میں‘ شان و شوکت کے اس عظیم الشان مسکن میں سب بھول چکی ہوں‘ بس شکرگزاری ہے‘ گناہوں کی معافی کی خواستگاری ہے اور آنسو ہیں شرمندگی کے‘ اپنے گناہوں پر‘ اپنی دنیاداری کے کاموں پر‘ اللہ پاک کی زیادہ عبادات نہ کرنے پر‘ اپنے غموں اور دردوں پر‘ آنسو بہتے رہے اور لب ہلتے رہے‘ کانوں نے کچھ نہیں سنا میں نے کیا مانگا اور کیا چھوڑ دیا‘ میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا اس کا رنگ زرد تھا وہ شان کبریائی کو سہہ نہیں سک رہا ہے مجھے محسوس ہوا وہ بڑے ہی خلوص سے اللہ سے مانگے جارہا ہے‘شاید اس کا بھی میرے جیسا ہی حال ہے کہ کیا پہلے مانگنا ہے اور کیا بعد میں مانگنا ہے‘ بیت اللہ کے حرم کا صحن احرام اور عبایا پہنے ہوئے خواتین و حضرات سے مکمل بھرا ہوا ہے ہر ایک کی کیفیت ہمارے ہی جیسی ہے نئے آنے والے ہماری طرح ہی آنکھیں نیچی کئے ہوئے خانہ کعبہ کو پہلی دفعہ دیکھ کر دعائیں مانگنے کی نیت سے رواں دواں ہیں‘ جب ہم دونوں خوب خوب دعائیں مانگ چکے تو آب زم زم جی بھر کر پیا‘ ایسا میٹھا اور مقدس پانی جس کا کوئی نعم البدل نہیں‘ ایک دو گلاس پینے کے بعد جیسے مسلمان سیر ہو جاتا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
اسپین کا خوبصورت شہر سویا
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محلہ جوگن شاہ سے کوپن ہیگن تک کی لائبریری
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
درختوں کا کرب
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
ہالینڈ کی ملکہ اور ان کی پاکستانی دوست
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو