پیسہ اخبار لاہور 24اپریل 1948ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تجارت درآمداور تجارت برآمد کے جو اعداد وشمار شائع ہوئے ہیں وہ بے حد مسرت افزا ہیں کہ پاکستان کی مالی حالت ہندوستان سے زیادہ اطمینان بخش ہے۔ اس عرصہ میں پاکستان سے22کروڑ روپیہ کا مال باہر گیا۔15کروڑ کا مال کراچی سے اور7کروڑ کا چٹانگ سے برآمد ہوا۔اس کے مقابلے پر9کروڑ کا مال پاکستان میں درآمد کیا گیا۔6کروڑ کا کراچی سے اور3کروڑکا چٹانگ سے یعنی اس عرصے میں 21کروڑ کا توازن پاکستان کے حق میں رہا۔1947میں جب ہندوستان اور پاکستان کو برطانوی تسلط سے آزادی ملی تو یہ دیگرنو آزاد ملکوں کی طرح تباہ حال نہیں تھے بلکہ کئی حوالوں سے ان سے زیادہ بہتر تھے۔ قدرت نے وطن عزیز کو ہر طرح کی نعمتوں سے مالال کیا ہے جن میں چار موسم، کھیت کھلیاں، بہترین نہری نظام،خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قیمتی پتھر، سونے اور گیس کے ذخائر موجود ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہم عالمی اداروں سے قرض لینے پر مجبور ہیں۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی نصف سے زیادہ آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے،لیکن عدم توجہی نے ہمارے ملک کے زرعی شعبے کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔گزشتہ کچھ سالوں سے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی لپیٹ میں پاکستان بھی آیاہوا ہے۔دنیا کے نقشے پر موجود 195ممالک میں سے ایک ملک ایسا بھی ہے جو رقبے کے اعتبار سے روس سے 21گنا چھوٹا ہے مگراس کا آبپاشی کا نظام روس کے مقابلے میں تین گنا بڑا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ غذائی اجناس کی پیداوار کے لحاظ سے یہ ملک اپنی مثال آپ ہے۔ چنے کی پیداوار میں یہ ملک دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گنے اوردود ھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ کپاس، امرود اور آم کی پیداوار کا تخمینہ لگایا جائے تو پانچویں نمبر پر ہے۔ کھجور اور مرچ کی پیداوار کا موازنہ کیا جائے تو دنیا بھر کے ممالک میں اس کا چھٹا نمبر ہے۔ گندم اور مٹر کی پیداوار کو دیکھا جائے تو یہ ملک ساتویں نمبرپر جب کہ پیاز کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں نمبر پر ہے۔ پالک اور تمبا کو کی پیداوار کے اعتبار سے یہ ملک نویں نمبر پر آتا ہے۔ چاول کی پیداوار میں کمی کے باجود یہ ملک اب بھی 13 ویں نمبر پر ہے۔ مالٹے اُگانے میں اس ملک کا 15 واں نمبر ہے جب کہ مکئی کی کاشت کے حوالے سے یہ ملک 16 ویں نمبر پرہے لیکن نا قابل یقین بات یہ ہے بھر پور پیداوار کے باوجود یہاں پر غذائی قلت کا سامنا بھی رہتا ہے،کبھی آٹے کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کبھی چینی کا بحران سر اٹھا لیتا ہے۔ کبھی کپاس در آمد کرنا پڑتی ہے تو کبھی دالیں اور دیگر غذائی اجناس کا بندوبست کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ آپ اگر اس ملک کی درآمدات پر نظر دوڑائیں تو بد قسمتی سے ہم نے زرعی ملک ہونے کے باوجود 2021 ء میں 68.7ملین ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کر کے 1689ٹن لہسن درآمد کیا۔ جولائی 2021 ء سے جون 2022ء تک 3612638میٹرک ٹن گندم خریدی گئی، 77581میٹرک ٹن خشک میوہ جات منگوائے گئے، 259491میٹرک ٹن چائے درآمد کی گئی، 185028میٹرک ٹن مصالحہ جات کی خریداری کی گئی، 3314384میٹرک ٹن سویا بین اور پام آئل خریدا گیا، 281328میٹرک ٹن چینی منگوائی گئی جب کہ 1266287میٹرک ٹن دالیں درآمد کی گئیں۔ ہر خطے، ملک اور علاقے کی ایک فطری استعداد ہوا کرتی ہے۔ دنیا بھر میں کہیں قدرتی وسائل کو ترقی کا زینہ بنایا گیا، کہیں فطری ماحول اور آب و ہوا سے استفادہ کیا گیا تو کہیں افرادی قوت کو اپنی طاقت بنایا گیا۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کی ترقی کا راز زراعت کو وسعت دینے میں پنہاں تھا۔ مگر ہمیں بتایا گیا کہ محض زراعت پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، آگے بڑھنے کے لئے صنعتی ترقی ناگزیر ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ صنعتی ترقی بھی ضروری ہے تاہم اس کیلئے کاشتکاری کو نظر انداز کر دیا گیا جو غلط ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فنانس ڈویژن کے مطابق ہمارے ہاں زرعی ترقی کی شرح جو 60ء کی دہائی میں 5.1فیصد تھی اب موجودہ دہائی میں کم ہو کر 3.2 فیصد رہ گئی ہے۔ اگر صنعتیں لگانا بھی تھیں تو اسے زراعت کے شعبہ سے ہم آہنگ کیا جاتا۔ مثال کے طور پر زرعی آلات بنانے اور اس حوالے سے جدید ٹیکنالوجی لانے پر توجہ دی جاتی۔ فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے نئے بیج متعارف کروائے جاتے۔ فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کی طرف توجہ مرکوز کی جاتی تاہم یہاں پر ایک شعبہ کو اہمیت دی گئی تو دوسرے کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں کپاس کی پیداوار بہت اچھی ہوا کرتی تھی۔ جنوبی پنجاب کے وہ علاقے جو کپاس کی پیداوار کے لئے مشہور تھے، وہاں گنے کی کاشت پر پابندی ہوا کرتی تھی،شوگر مل نہیں لگائی جاسکتی تھی۔ لیکن پھر گنے کی کاشت بڑھانے، شوگر ملوں کا جال بچھانے کا فیصلہ ہوا تو ان پابندیوں کو روندتے ہوئے 25 لاکھ ہیکٹر بہترین زرخیز زمین گنے کی فصل کی نذر کر دی گئی۔ جبکہ گنے کو مرطوب آب و ہوا درکار ہے، زیادہ پانی اور وقت درکار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سرتوڑ کوشش کے باوجود کولمبیا، بارہا ڈوس یا برازیل جتنی فی ایکڑ پیداوار حاصل نہیں کی جاسکتی اور پھر گنے میں مٹھاس کم ہوتی ہے۔ ایک من گنے سے بمشکل 4 کلو گرام چینی کشید کی جاتی ہے جب کہ دیگر ممالک میں یہ شرح کافی زیادہ ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کپاس کی برآمدات گنوانے کے بعد ہمیں چینی بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔سالانہ 31ارب ڈالر کی برآمدات میں سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا حصہ 18 بلین ڈالر ہے۔ اس کے لئے بھی تقریباً 5 بلین ڈالر کا خام مال درآمد ہوتا ہے۔ لگ بھگ 3 بلین ڈالر توانائی پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ گویا حقیقت میں 10بلین ڈالر بچتے ہیں، ان میں بھی مقامی طور پر پیدا کی گئی خام کپاس کا تخمینہ 3 ارب ڈالر ہے۔ یعنی صنعتی ترقی سے ہمیں 17ارب ڈالر ملتے ہیں اور 18 ارب ڈالر کی غذائی اجناس در آمد کرنا پڑتی ہیں۔ اب بھی وقت ہے اگر زراعت کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے ایسی پالیسی مرتب کی جائے کہ جس سے زراعت اور صنعت کی ترقی کو متوازن کیا جائے۔