برفباری کے مہینے کم ہو چکے ہیں 

کینیڈا میں ابھی بھی سردی بہت زیادہ ہے‘  گزشتہ دنوں برف کا طوفان ایسی تباہی مچا کر گیا ہے کہ گھنٹوں بے چارے لوگ برف صاف کر کرکے تھک گئے ہیں‘ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہفتوں پہلے موسم کی پیش گوئی کو اتنا آسان کر دیا ہے کہ ادارے عوام الناس کو سخت اور شدید موسم کیلئے پہلے سے الرٹ کر دیتے ہیں اور لوگ اس الرٹ کے مطابق اپنی زندگی کا طور طریق شیڈول کرتے ہیں‘ برف کے اس طوفان کے بارے میں بھی حکومت نے بہت پہلے اپنے عوام کو خبردار کردیا تھا حتیٰ کہ وہ وقت تک بتا دیا تھا جب طوفان شروع ہوگا اور کتنے گھنٹوں تک اسکی شدت جاری رہ سکتی ہے‘ ترقیافتہ ممالک میں عوام کیلئے سہولتوں کی بھرمار ہوتی ہے‘ کینیڈا بھی جی ایٹ کے ممالک میں شامل ہے جہاں اپنے عوام کی مشکلات کو آسان کرنے کیلئے جادو کی چھڑیاں ہمیشہ موجود رہتی ہیں‘ آپ کسی بھی مشکل میں ہوں صرف ایک فون کال پر ساری حکومت آپ کی جان مال عزت وآبرو کی حفاظت کیلئے آپ کے دروازے پر موجود ہوتی ہے۔ امیگرنٹس کی بہتات کی وجہ سے مدد مانگنے کیلئے اب انگریزی زبان بولنے کی پابندی کو بھی ختم کردیاگیا ہے آپ کسی بھی اپنی مادری زبان میں نائن ون ون کو فون کر سکتے ہیں‘ انہی سہولتوں کی بھرمار میں برف سڑکوں پر سے ہٹانے کیلئے اور شاہراؤں کو قابل استعمال بنانے کیلئے سینکڑوں برف ہٹانے کی گاڑیاں طوفان ختم ہوتے ہی حرکت میں آجاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سڑکیں ایسامنظر پیش کر رہی ہوتی ہیں جیسے کبھی یہاں برف کا نشان بھی نہیں تھا البتہ سڑکوں کے کناروں پر برف کے پہاڑ اس بات کے گواہ ہوتے ہیں کہ طوفان گزر گیا ہے اور حکومت بھی جاگ رہی ہے‘ ایسے میں میرے دل  میں یہ خواہش جاگ اٹھتی ہے کہ کاش غریب ملک بھی اپنے عوام الناس کے دکھ درد میں اسی طرح شریک ہوں جس طرح ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کو مشکلات میں اکیلا نہیں چھوڑتیں‘ گھروں کے مکین اپنے پورچ اور گھر کے سامنے بنے ہوئے فٹ پاتھ کی برف خود  ہٹاتے ہیں‘ اس بات کیلئے تمام ضروری ٹولز ہمیشہ ان کے گھروں میں موجود ہوتے ہیں‘ گاڑیاں جب برف سے بھر جاتی ہیں تو ان کی ونڈسکرین سے جمی ہوئی برف نکالنے کیلئے ایسے ایسے برش موجود ہیں کہ فوراً ہی سکرین صاف ہو جاتی ہے‘ سردی جب منفی21سے شروع ہو کر اگلے درجوں پر پہنچ جائے تو پھریہ  مذاق کی بات نہیں ہوتی‘ اس کیلئے برف کی جیکٹ‘ ٹوپی اور داستانوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ ہوا اتنی شدت سے چلتی ہے کہ پیدل نہیں چلا جا سکتا‘ پورے گرم لباس پہن کر ہی گھر کی برف کو بھی صاف کیا جاتا ہے‘ لاکھوں کی تعداد میں امیگرنٹس کے آنے کی وجہ سے سرسبز درختوں کی کٹائی کردی گئی ہے تاکہ نئے آنے والوں کیلئے گھروں کی کمی پوری کی جائے‘ آپ کو علم ہے جب جنگل اور سبزہ کم ہو جاتا ہے تو اسکی جگہ دھوپ اور گرمی قبضہ کرلیتی ہے‘ کینیڈا کی گرمیاں اسلئے لمبی ہوتی جارہی ہیں اور سردیوں کی شدت اور برف کے طوفانوں میں بہت کمی واقع ہوگئی ہے‘ جو لوگ یہاں 70-60 کی دہائیوں میں آئے تھے ان کے مطابق سردیاں اور برفباری اگست کے مہینے سے شروع  ہو جاتی تھی جسکی شدت منفی80 درجے تک تھی وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اور آبادی کروڑوں تک پہنچنے کی وجوہات کی بناء پر اب سردی کے مہینے دسمبر کے آخر میں شروع ہوتے ہیں اور بس مارچ کے آخر میں ختم بھی ہو جاتے ہیں جنوری فروری میں برفباری ہوتی ہے اور کبھی کبھی طوفان آجاتا ہے جس کا دورانیہ بھی 6دنوں سے گھٹ کر ایک دن رات تک ہی رہ گیا ہے مجھے تو اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ تین مہینے کی یہ سردی بھی آبادیوں کے جنگل میں کہیں کھو نہ جائے۔ آبادی کا بوجھ بڑی آہستگی  کے ساتھ کسی بھی ملک کے تمام تر شعبوں پردباؤ ڈالتا ہے لیکن کینیڈا کی حکومت یقینا اس مشکل  سے آگاہ ہوگی اور مجھے پوری امید ہے کہ وہ آبادی کے اس بوجھ سے نمٹنے کیلئے تیاری بھی کر رہی ہوگی۔