سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی

گزشتہ 15 برسوں میں دنیا کے سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی ایک ایسی سطح تک پہنچ گئی ہے جس کی اس سے قبل کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایک نئی تحقیق میں پلاسٹک کے نقصان دہ کوڑے پر قابو پانے کے لئے بین الاقوامی معاہدے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی پوری دنیا کے لئے ایک مستقل مسئلہ ہے -سمندری جاندار پلاسٹک کے بڑے ٹکڑوں جیسے مچھلی پکڑنے کے جالوں میں پھنس سکتے ہیں، یا پلاسٹک کے انتہائی باریک ٹکڑے، جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے، کھا سکتے ہیں جو انجام کار انسانوں کی خوراک کھانے کے سلسلے کا حصہ بن جاتے ہیں۔بدھ کو شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ آج دنیا کے سمندروں کی سطح پر پلاسٹک کے 170 ٹریلین ٹکڑے، خاص طور پر مائیکرو پلاسٹکس موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جنہیں 2005 سے سمندورں میں پھینکنا شروع کر دیا گیا تھا۔اوپن ایکسیس جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پچھلے 15 برسوں کے دوران دنیا کے سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی غیر معمولی سطح پر پہنچ گئی ہے۔یہ مقدار پچھلے تخمینوں سے زیادہ ہے اور تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر اسے روکا نہ گیا تو آنے والے عشروں میں سمندروں میں پلاسٹک کا فضلہ اکھٹا ہونے کی شرح کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔محققین نے 1979 اور 2019 کے درمیان 40 سال کی مدت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دنیا بھر میں گیارہ ہزار مختلف مقامات سے پلاسٹک کے نمونے لیے۔انہیں 1990 تک سمندروں میں پلاسٹک پھینکے جانے کے رجحان میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی، لیکن پھر 1990 اور 2005 کے درمیان اس رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور اس کے بعد سمندروں میں ان کی تعداد آسمان کو چھونے لگے۔اس تحقیق کی مصنفہ لیزا ایرڈل کا کہنا ہے کہ ہم 2005 کے بعد سے اس میں واقعی تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں کیونکہ پلاسٹک کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ان پالیسیوں کی تعداد بہت کم رہی جو سمندر میں پلاسٹک پھینکے جانے کو کنٹرول کر تی ہیں۔مثال کے طور پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والے جال اور دوسرا سامان ناکارہ ہونے پر انہیں اکثر سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے یا وہ حادثاتی طور پر گر جاتے ہیں۔ اسی طرح کپڑے، گاڑیوں کے ٹائر اور ایک بار استعمال کی پلاسٹک کی چیزیں اکثر ساحلی علاقوں کو آلودہ کرنے کا سبب بنتی ہیں۔انجام کار یہ چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اکانومسٹ امپیکٹ اور دی نپون فانڈیشن کی مشترکہ طور پر تیار کردہ رپورٹ کے مطابق، پلاسٹک کے استعمال کے موجودہ رجحانات کے پیش نظر ترقی یافتہ جی 20 ممالک میں 2019 سے 2050 تک پلاسٹک کا استعمال تقریبا دوگنا ہو کر سالانہ 451 ملین ٹن تک پہنچ جائے گا۔۔حتی کہ ان ممالک میں جہاں کوڑا کرکٹ کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کا جدید نظام موجود ہے، وہاں بھی پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لئے بہت کم کام کیا گیا ہے اور پلاسٹک کے فضلے کی انتہائی معمولی مقدار کو ری سائیکل کیا جاتا ہے جب کہ اس کے بہت بڑے حصے کو زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے۔اگر اسے زمین میں دبانے کا بندوبست مناسب طریقے سے نہ کیا گیا ہو تو پلاسٹک کا فضلہ ماحول کو آلودہ کرنے لگتا ہے اور پانی میں شامل ہو کر آخرکار سمندر میں پہنچ جاتا ہے۔ایزڈل کا کہنا ہے کہ ری سائیکلنگ میں کمی کی وجہ سے ہمیں زہریلی مصنوعات اور ان کی پیکنگ کے فضلے کے انبار نظر آتے ہیں۔1950 میں دنیا بھر میں صرف 20 لاکھ ٹن پلاسٹک تیار ہوا تھا۔1990 اور 2005 کے دوران بعض مقامات پر پلاسٹک کے فضلے کی شرح میں کمی دیکھی گئی، کیونکہ وہاں آلودگی پر قابو پانے کے لیے کچھ موثر پالیسیاں موجود تھیں۔اس میں 1988 کا مارپول معاہدہ بھی شامل ہے، جو 154 ممالک کو بحری اور ماہی گیری کے مقاصد کے لیے جہاز رانی کو پلاسٹک کے فضلے کو سمندر میں ضائع نہ کرنے کا قانونی طور پر پابند کرتا ہے۔تاہم ان قوانین کے باوجود اگر سمندری فضلے میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ عالمی برادری کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔