کینیڈا دعوتوں کا ملک ہے‘ خاص طور پر پاکستان کمیونٹی اپنے دوستوں کو گھروں پر بلا کر کھلاپلا کر بہت فخر اور خوشی محسوس کرتی ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ بہت کم خواتین کو اچھا کھانا پکانا آتا ہے‘ لیکن ڈشز اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہر ایک کے مطلب کی کوئی نہ کوئی ڈش قابل قبول رہتی ہے‘ بعض خواتین کا پکا ہوا کھانا ایسا لذیز اور مزیدار ہوتا ہے کہ کیا کھاؤں اور کیا چھوڑوں کے مصداق بات ہو جاتی ہے‘ ایک دعوت میں میٹھے کی ڈشز پر چاندی کے ورق لگے ہوئے دیکھ کر نہ جانے کتنی ہی یادیں آگئیں‘ اور آتی ہی چلی گئیں‘ چاندی کے ورق کا ذکر ہو اور پشاور یاد نہ آئے یہ دو متضاد باتیں ہیں‘ ہمارے گھر میں بھی فرنی کے ڈونگے پر جب تک چاندی کے ورق نہ لگ جاتے ہماری ماں اس کو نامکمل سمجھتی‘ گلی سے نکل کر باہر بازار کی نکڑ پر فدا پنساری بھی چاندی کے ورقوں کے ساتھ ہی یادوں میں آتا چلا گیا اسکی اونچی دوکان جو مختلف چھوٹے بڑے ڈبوں سے بھری ہوتی تھی‘ دنیا کی کوئی بھی نایاب شے فدا صاحب سے مانگ لی جائے تو وہ کسی نہ کسی ڈبے میں موجود ہوتی جس سے نکال کر پڑیا بنا کر گاہک کو دے دی جاتی۔ ہر قسم کے رنگ‘ ہر قسم کے حکیمانہ نسخے‘ ہر قسم کی سجاوٹ کے آئٹم کہیں نہ کہیں سے کسی کونے کھدرے سے مہارت کیساتھ نکال لانا‘ فدا پنساری کیلئے بائیں ہاتھ کا کام ہوتا تھا‘ انہی میں چاندی کے ورق بھی ہوتے تھے جو ڈبوں میں ہی بند نظرآتے تھے اور گاہک کے مانگنے پر کاغذ میں لپیٹ کر دے دیئے جاتے تھے‘ اسی طرح کی کتنی ہی یادیں میں جو پشاور اور اپنے گلی محلے سے جڑی ہوئی ہیں۔ مجھے لگتا تھا میرے پشاور میں جو چیز ملتی ہے‘کسی اور شہر میں کبھی مل ہی نہیں سکتی‘ شادی کے بعد بھی میری آدھی سے زیادہ خریدوفروخت کا مرکز میرا اپنا شہر ہوتا تھا‘ اسلام آباد میں کچھ خریدنے کا
مجھے طریقہ ہی نہ آتا تھا خاص طورپر اپنے تمام کپڑے میں پشاور شفیع مارکیٹ سے خریدتی تھی اور درزی تو میرا کبھی بدلا ہی نہیں جو کام پشاور کے درزی اپنی مہارت سے کرتے ہیں اسلام آباد میں کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا دوسرا مزدوری اتنی کم کہ جیب اسکی اجازت دیتی تھی‘ایک اور بات جو مجھے آج تک یاد ہے کہ اگر میں 10 جوڑے سینے کیلئے دوں اور ٹاپ کا جوڑا بھی ساتھ دوں تو جو ڈیزائن ٹاپ کے جوڑے پر بنا ہوتا باقی10جوڑے بالکل ہم رکاب ہوتے‘ دیکھ کر غصہ آتا لیکن اپنے درزی کی حد درجہ سادگی پر مسکراہٹ بھی آجاتی جب مرینہ کا کپڑا بالکل نیا نیا مارکیٹ میں آیا تو اپنے وقت کے حساب سے کافی مہنگا تھا میں نے بھی شفیع مارکیٹ سے ایک خوبصورت مرینے کا سوٹ خریدا اور درزی کو سینے کیلئے دے دیا تاکہ آفس میں یہ نیا متعارف ہونے والا کپڑا پہن سکوں حالانکہ مجھے ساری زندگی کسی کپڑے جوتے کا بے طرح کا شوق نہیں رہا‘ نہایت سادہ لباس پہنا مناسب قیمت کا آرام دہ جوتا خریدا‘ میک اپ کا شوق کبھی رہا ہی نہیں تو زندگی سادگی سے گزر گئی‘ ورنہ تو شوبز میں کام کرنے والی خواتین اپنے شوق میں مکمل ہوتی ہیں‘ تو مرینے کا سوٹ جب سل کر میرے پاس آیا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ سوٹ الٹا سیا
ہوا تھا میرے درزی کو کپڑے کی الٹی طرف اچھی لگی وہ اپنے طور پر اسی کو سیدھا سمجھا‘ یہ واقعہ کبھی بھول نہیں سکتی اس لئے کہ مرینے کا نسبتاً قیمتی سوت اور پھر جلدی پہننے کا شوق‘ لیکن میں نے بھی اسکو الٹا ہی کئی مرتبہ پہنا بھلا ہو لوگوں کا جن کو کچھ بھی پتہ نہ چلا‘ پشاور کی کیا بات ہے انسان ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں بھی اپنے گلی محلے بازار اور اپنے لوگ کبھی نہیں بھول سکتا‘ جوہر میر ہو کہ عتیق صدیقی‘ ڈاکٹر امجد ہو کہ ڈاکٹر الف گل‘ اور میں خود‘ پشاور ہم سب کی یادوں میں بسا رہتا ہے‘ دعوت میں بیٹھے ہوئے چاندی کے ورق مجھے نہ جانے کیا کیا یاد دلاگئے شب برأت گزر گئی ہے لیکن اپنے گھر میں اپنی پیاری ماں کا شب برأت میں فاتحہ دینا یاد آگیا‘ شب برأت میں سب لوگ قبرستان جاتے‘ پھول اور عرق گلاب ہر ایک کے ہاتھ میں ہوتے‘ ہم بھی اپنی ماں کے ساتھ قبروں پر جاتے‘ اپنے والد کی قبر پر کھڑے ہوتے جو میرے بے خبر بچپن میں ہی وفات پاچکے تھے میری ماں بے اختیار رو پڑتی اپنی بہادر ماں کو بہت کم روتے ہوئے دیکھتی تھی ہماری انگلیاں تھامے ہوئے فوراً اپنے آنسو پونچھ لیتی اور ہمیں سنتریاں دلانے کے بہانے قبروں سے ہٹا دیتی‘ اب سوچتی ہوں ایک جوان عورت کیلئے اپنے خاوند کی بے وقت موت دن رات کیسی کیسی مضطرب گھڑیاں لاتی ہوگی لیکن اب تو صرف یادیں ہیں‘ قبرستان میں اپنوں کیلئے بے اختیار رونے والی میری ماں اب خود انہی کے پاس جا کر منوں مٹی تلے سو گئی ہے اور اب ہم سنتریاں کھا کر بہلنے والے اپنی ماں کی عمروں کو پہنچ چکے ہیں لیکن یادوں کی زمین ہمیشہ زرخیز ملتی ہے‘ ذرا آنکھیں بند کروں تو پشاور کو لے کر ایک جہان آباد ہو جاتا ہے اللہ پاک میرے ملک اور میرے شہر کو سکون اور راحت نصیب کرے۔