نوجوانوں کیلئے قرضہ سکیم

گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ نوجوان کامیاب یوتھ لون پروگرام کے تحت قرضہ حاصل کر کے اپنے کاروبار کوفروغ دے کر ملکی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرینگے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دے رہے ہیں‘مشکل معاشی صورتحال کے باوجود حکومت نوجوانوں کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے پر عزم ہے‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نوجوانوں کیلئے گزشتہ قرضہ سکیموں میں ریکوری کی شرح 99فیصد رہی، قرضہ سکیم سے معیشت اور نوجوانوں کو فائدہ ہوا،وزیر اعظم نے کفایت شعاری فیصلوں پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی۔وزیر اعظم کا نوجوانوں کے لئے آسان شرائط پر قرضہ اور طلبا کے لئے لیب ٹاپ سکیم کا اجرا قابل تحسین ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طلبہ ملک و قوم کی بنیاد ہیں  اور ان کو مضبوط کرنا ملک کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ طلبہ اور ہنر مند نوجوانوں کو قرضے دئیے جائیں کہ ان سے پھر ریکوری بھی آسان ہے اور یقینی ہے۔ کیونکہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ طلبہ اور نوجوانوں کو جو قرضے دئیے گئے ہیں ان کی واپسی کیش شرح سوفیصد کے قریب رہی جبکہ دوسری طرف بہت سے کارخانے داروں اور سرمایہ کاروں کو جو قرضے دئیے گئے ہیں ان میں سے اکثر بعد میں معاف کروا دئیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کی یہ بات درست ہے کہ نوجوان90 فیصد قرضے واپس کرتے جبکہ بعض بڑے بڑے تاجر یہ قرضے معاف کروالیتے ہیں‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ملک کی معیشت کو آج اس نہج پر پہنچانے میں کلیدی کردار ان افراد کا ہے جو  قومی خزانے سے قرضے لے کر واپس نہیں کرتے۔ قومی خزانے سے قرض لے کر واپس نہ کرنا ایک طرح سے قوم کی دولت پر ڈاکہ ڈالنا ہے جس کی ہر گز اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ایک تازہ ترین رپورٹ میں چشم کشا اعدادو شمار کے مطابق 1971 سے 1991 تک 3.2 ارب روپے‘ 1991 سے 2009تک 84.6 ارب روپے اور 2009 سے 2015 تک 345.4 ارب روپے معاف کروائے گئے‘1990 سے 2015 تک سینیٹ میں پیش کی گئی فہرست کے مطابق گزشتہ 25سالوں میں 988 سے زائد کمپنیوں اور شخصیات نے 4 کھرب، 30 ارب 6 کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے۔ ان میں 19 کمپنیوں یا افراد نے ایک ارب روپے سے زائد کا قرضہ معاف کروایا۔ قرض معاف کرنے کے یہ واقعات کسی ایک حکومت کے دور سے تعلق نہیں رکھتے، ہر حکومت ایسی ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے‘ اسکے برعکس غریب عوام جو ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض لیتے ہیں اگر وہ معمولی قرض بروقت ادا نہ کر سکیں تو ان کی جائیدادیں قرق کی جاتی ہیں اور انہیں جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔وزیر اعظم پاکستان جس لگن اور تیزی کے ساتھ ملکی معیشت کو بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور جس طرح کفایت شعاری کو حکومتی پالیسی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ملکی معیشت کی بحالی کاخواب جلد شرمندہ تعبیر ہوگا تاہم اس کیساتھ ساتھ وزیر اعظم کو اس جانب بھی توجہ کرنی چاہئے تا کہ قرضے معاف کروانے کا یہ سلسلہ بند ہو اور معیشت پر بالواسطہ لگنے والی ان کاری ضربوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے‘ وقت آگیا ہے کہ بڑے بڑے صنعتکاروں‘ ملز مالکان اور سیاستدانوں  ان کے ذمے موجود قرضوں کی وصولی کر کے قومی خزانے میں جمع کی جائے۔ کہ یہ وقت ہر کسی کو اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرنے کی ہے اور حصہ بقدر جثہ کا اصول اگر لاگو ہو تو ان لوگوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تا کہ غیر ملکی بھاری سودی قرضوں سے قوم کو نجات دلائی جائے۔