پشاور شہر میں رمضان کی تیاری خاص اہتمام سے کی جاتی ہے آج سے صرف دو دہائیاں بھی پیچھے کی طرف لوٹ چلیں تو پشاور کے شہریوں کا رہن سہن طور طریق رسم و رواج کا عروج ملتا ہے پشاور شہر کے لوگ اندرون شہر کی گلیوں محلوں میں آباد تھے۔ ہندکو بولنے والوں کی اکثریت سے گلی محلے اس طرح آباد تھے کہ ان کا اپنا اک انداز زندگی نمایاں تھا ان دنوں گھروں میں مس کے برتنوں کو استعمال کرنے کا رواج تھا جو نانیاں‘دادیاں نسل در نسل اپنی بیٹیوں پوتیوں نواسیوں کو داج میں یہ برتن تحفتاً دیتی تھیں مٹ‘ کڑلے‘ لگن‘ چمچے‘دیگچے‘ دیگچیاں‘ چلمچیاں‘ لوٹے چلے صاف اور یہ چم چم کرتے برتن جہیز کی شان ہوتے تھے اور سسرال والوں کاگھران برتنوں سے سج جاتا تھا۔مس کی یہ دھات اپنے اندر ایسی قسم رکھتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ میلی اور کالی ہو جاتی ہے پشاور کے رہنے والے ہندکو وان رمضان سے پہلے کی تیاری میں اپنے مس کے برتنوں کی قلعی کروانا اہم ترین کام سمجھتے تھے اسی طرح لڑکیوں کو داج میں دینے کے لئے بھی برتنوں کو مکمل قلعی کروایا جاتا تھا قلعی گروں کی دوکانیں گلی محلوں میں عام ہوتی تھیں جو اسی مقصد کے لئے بنی ہوتی تھیں لیکن زیادہ تعداد میں برتن قلعی کرانے کی غرض سے قلعی گر کو گھر بلوالیا جاتا تھا۔ بعض اوقات گلیوں میں بھی قلعی گر اپنی چھوٹی سی دوکان بسائے ایک گھر کے سامنے قلعی کرتا ہوا نظر آتا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گلی کے ہر گھر سے کوئی نہ کوئی برتن ایسا نکل آتا جس کو قلعی کروانا ضروری سمجھا جاتا بس پھر کیا تھا قلعی گر کچھ ہی گھنٹوں میں اپنی مزدوری کو بڑھاوا دیتا ہوا نظر آتا۔ اور قلعی کروانے کے بعد برتن جیسے چاند کی طرح چمکے دھمکتے ہوئے نکل
آتے یقینا آج بھی کریم پورہ‘ جہانگیر پورہ‘ شاہ ڈھنڈ‘ ڈھکی وغیرہ کے پرانے محلوں میں قلعی گر بھی موجو ہوں گے اور ہندکو وان خاندان بھی موجود ہوں گے۔ لیکن دو دہائیاں گزرنے کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ پشاور شہر کے لوگ اپنے آبائی گھر چھوڑ کر نئی آبادیوں میں جا بسے ہیں ان کی جگہ مکین بدل گئے ہیں جیسا کہ قدرت کا اصول ہے کہ ایک چلا جاتا ہے تو دوسرااس کی جگہ پر کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے کارخانہ زندگی رکتا نہیں ہے پشاور میں رمضان کے ساتھ ہی کئی یادیں آتی ہی چل آ رہی ہیں گھر تو صاف ستھرا کیا جاتا تھا نئے دستر خوان خریدے جاتے تھے،چولہے بنسیاں دھوئی جاتی تھیں۔ سرگی کے وقت مدح خوان آتے تھے کچھ کچھ سیکنڈز ایک ایک گھرکے سامنے نظم کی صورت میں رمضان کی فضلیت اور سرگی ہو جانے کی نوید سناتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ جاتے تھے الارم کا رواج کم ہی ہوتاا تھا نہ تو موبائل فون تھے نہ گھڑیوں میں الارم بولا کرتے تھے۔ مدح خوانوں کے ساتھ ڈھولک والا پوری قوت سے ڈھول بجا کر گہری نیند سے لوگوں کو جگانے کا نیک فریضہ انجام
دیتے۔ پشاور کی خواتین تو سرگی سے پہلے ہی چولہا سجا لیتیں۔ اگر محلے کا دودی اپنی دوکان سرگی تک کھولے رکھتاا تو پھر تو دودھ ملائی وہاں سے سرگی کے وقت ہی لائی جاتی ورنہ رات کو ہی لا کر چھکے میں رکھ دیا جاتا فریج تو بہت بعد میں آگئے۔ گھروں میں لٹکا ہوا ایک چھکا ٹھیک ٹھاک فریج کا کام دیتا،کیڑے مکوڑوں سے محفوظ ہوا میں لٹکا ہوا، ملائی کے بغیر پشاور کے شہریوں کی سرگی بالکل ہی نامکمل ہوتی، جب خواتین پراٹھے پکا لیتیں چائے سالن ملائی وغیرہ تیار ہو جاتے تو ہی گھر کے مردوں کو اٹھایا جاتا۔ہر گھر سے اصلی گھی کے پراٹھوں کی خوشبوئیں آتیں‘ جس صاف مطلب ہوتا کہ خاتون خانہ جاگ رہی ہے اور سرگی کھاتی جا رہی ہے۔ مسجد کی اذان کے ساتھ ہی کھانا پینا بند ہوتااور فجر کی نماز کی تیاری ہوتی۔ بہت سے لوگ مسجدیں آباد کرتے اور بہت سے ایسے بھی تھے جو کھا پی کر دوبارہ سو جانے کو ترجیح دیتے خوانین فجر کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کرتیں گھر کی بچیاں اپنے برتن دھوتیں گھر صاف کرکے اپنے سکول جانے کیلئے تیاری کرتیں۔ کئی ایسے گھر بھی ہوتے جن کی آنکھ سرگی میں مدح خوانوں کی آوازوں سے اور ڈھول والے کے ڈھول پیٹنے سے بھی نہ کھلتی‘ پشاور کے آدمی سخت مزاج اقع ہوتے تھے عورتوں کے سرگی کے وقت نہ اٹھنے پر سخت سرزنش بھی ہوا کرتی لیکن روزہ کو چھوڑ دینے کا کوئی تصور نہیں ہوتا تھا سرگی چھوٹ کئی تو بغیر کھاتے پیتے روزہ رکھا جاتا جو کہ ظاہر ہے ایک مشکل امر ہوتا اور ایسے نازک مواقع پر خواتین افطاری پر زیادہ اہتمام کرتیں‘ افطاری اور اور افطاری سے پہلے کی اپنی دلچسپ روداد ہے جو کبھی انہی صفحات میں بیان کرونگی۔