وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران مہنگائی کی شرح 31 عشاریہ چھ فیصد پر پہنچ گئی ہے جو تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔گزشتہ ماہ یہ شرح 27.60 فیصد تھی۔ ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں،مشروبات،تمبا کو، جلد خراب ہو نیوالی غذائی اشیاء، ریسٹورنٹ اور ہوٹلز کے بلوں گھروں کی تزئین و آرائش والی اشیا ادویات کپڑوں جوتوں یوٹیلٹی بلوں اور روزمرہ استعمال کی اشیاء، چکن، پیاز، انڈے، چاول، دالوں، آٹے، خوردنی تیل، تازہ پھلوں، دودھ، مچھلی، گوشت اور سبزیوں کی مد میں ہوا ہے جو 12 سے 96 فیصد تک ہے۔ پٹرول ڈیزل گیس اور بجلی کے نرخوں میں بتدریج ہو نیوالے اضافے کے اثرات تمام اشیاء کی قیمتوں پر مرتب ہورہے ہیں۔ اس میں اگر چہ بین الاقوامی حالات کو بھی دخل ہے تاہم اس کی بڑی وجہ درآمدات کا بوجھ ہے جسے کم کرنا ضروری ہے اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم ملکی وسائل سے بھر پور استفادہ کریں۔ اگر ماضی میں حکومتوں نے تیل گیس اور قیمتی دھاتوں کی شکل میں زیرزمین موجود قیمتی ذخائر کو جامع منصوبہ بندی کے تحت بروئے کار لانے کی قومی پالیسی وضع کی ہوتی تو ہم ان قیمتی قدرتی وسائل سے آج مالا مال ہوتے اور ہمیں انکے حصول کیلئے کسی کا دست نگر نہ ہونا پڑتا۔ ہم نہ صرف ان ذخائر سے اپنی ضروریات پوری کرتے بلکہ انہیں برآمد کر کے اپنے زرمبادلہ میں بھی اضافہ کرتے رہتے۔ نتیجتاً ہمیں آئی ایم ایف کی ناروا شرائط پر بنی قرض کے حصول کیلئے بھی کوشش نہ کرنا پڑتی۔ آج ڈالر 281روپے تک جا پہنچا ہے۔ نتیجتاً آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کئے گئے قرضے بھی بغیر کوئی نیا قرض لئے دو سے تین گنا بڑھ گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اگر چہ 19 ارب77کروڑ روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے مگراس حوالے سے خصوصی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں ایسے اعلانات کے باوجود عام شہری کو اس کا خاطرخواہ فائدہ نہ ہوا۔ دوسری طرف خاص طور پر رمضان المبارک سے قبل اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہونا معمول بن چکا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دُنیا بھر کے بہت سے ممالک میں اُن کے خصوصی دنوں اور تہواروں کے موقع پر اشیائے ضرور یہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہے جب کہ وطن عزیز میں ہر شے کے دام بڑھ جاتے ہیں،ہر سال ہی رمضان المبارک میں گرانی اپنے عروج پر پہنچی ہوتی ہے۔دودھ،آٹا،گھی،تیل، سبزیاں وغیرہ سب مہنگے ہو جاتے ہیں اور پھل تو غریبوں کے لیے شجر ممنوعہ اس لیے ہو جاتے ہیں کہ وہ اُن کی اتنی زائد قیمت پر خریداری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔حکومت اور متعلقہ انتظامیہ اس کی روک تھام کے حوالے سے کوششیں کرتی رہتی ہے تاہم اس کا مستقل حل نکالنا ضروری ہے۔ایک وقت تھا کہ مجسٹریسی نظام کے ذریعے مارکیٹ اور بازار میں نرخوں کو کنٹرول میں رکھا جاتا تھا اور موقع پر ہی گرانفروشوں کو جرمانے کئے جاتے۔اب بھی مجسٹریسی نظام کو پوری طرح بحال کرکے اس ضمن میں مشکلات کو کم کیا جاسکتا ہے۔یاد رہے ملک کی آبادی 22کروڑ ہے اور ملک بھر میں یوٹیلٹی سٹورزکی کل تعداد 5491 ہے۔اب ذرا تصور کریں کس طرح ملک کے کروڑوں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر نا جائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خور تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزاؤں کے اقدامات کیے جائیں۔پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی کارکردگی کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ ضلعی حکومت کے نمائندوں کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے اور ان سے مہنگائی کے خاتمے کے لئے مرکزی کردار اداکروایا جائے۔ضروری ہے کہ مارکیٹ اور بازار میں نرخوں کے حوالے سے حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے،کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔ملک بھر میں مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے ناصرف راست اقدامات کی ضرورت ہے بلکہ رمضان المبارک میں عوام کو گرانی کے عذاب سے بچا نا از حد ضروری ہے۔تمام بازاروں کا ذمے داران دورہ کریں اور وہاں سرکاری نرخ نامے کے مطابق اشیائے ضروریہ کی فروخت ممکن بنائیں،گراں فروشوں کیخلاف کڑی کاروائیاں کی جائیں۔