پاکستان میں ڈیموں کی اشد ضرورت

 اس وقت پوری دنیا میں بنائے گئے ڈیموں کی کل تعداد 58,000ہے جس میں سے سبسے زیادہ ڈیم  چین میں ہیں۔ جی ہاں  چین میں 24,000ڈیم ہیں۔پاکستان کے ڈیموں کی تعداد 500بھی نہیں بنتی۔پاکستان میں بارشیں سال کے صرف تین مہینوں میں ہوجاتی ہیں جب کہ ہماری فصلوں کو سارا سال پانی چاہئے ہوتا ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کے فرق کو صرف سٹوریج سے ہی پورا کیا جا سکتا ہے لہٰذا پاکستان جیسے زرعی ملک کے لئے تو ڈیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں۔دریاؤں کے علاوہ پہاڑی سیلابی نالوں سے آنے والے بڑے سیلابی ریلوں کو بھی بڑی تعداد میں ڈیم بنا کر سیلاب سے بچا جا سکتا ہے جس کا واضح ثبوت گزشتہ سال کے سیلاب میں ڈیرہ اسماعیل خان کے شہر کا گومل زم ڈیم بننے کی وجہ سے بچ جانا ہے حالانکہ ڈیرہ کے شمال میں میانوالی ٹانک اور ڈیرہ کے جنوب میں تونسہ میں پہاڑی سیلابی نالوں پر ڈیم نہ بننے سے بہت تباہی ہوئی ہے۔بلوچستان میں ہونے والی بارشوں کے پانی کا حجم بھی کم از کم 20 ملین ایکڑ فٹ ہوتا ہے جب وہاں اب تک تعمیر کئے گئے ڈیموں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف1.5 ملین ایکڑ فٹ ہے اور بقیہ 18.5 ملین ایکڑ فٹ پانی سیلابی ریلوں کی صورت تباہی مچاتا ہے۔پا۔اس وقت جو منصوبے زیر تکمیل ہیں ان منصوبوں کے اختتام پر ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 13.6 ملین ایکٹر فٹ سے بڑھ کر 80 فیصد اضافے کے ساتھ 25.3 ملین ایکٹر فٹ ہو جائے گی۔ جس سے تقریبا ً30لاکھ ایکڑ اضافی زمین
 سیراب کی جاسکے گی جو ملک میں زرعی انقلاب کا بیش خیمہ ثابت ہوگا اور اس سے علاقے کی سماجی اور معاشی ترقی میں انقلاب بر پا ہو گا۔ پانی کے ان ذخائر سے شہری پانی کے لئے روزانہ 95کروڑ گیلن پانی مہیا کیا جائے گا جو ملک کی بڑھتی آب رسانی کی ضرورت کو پورا کرنے میں مثالی ثابت ہوگا۔ ان پراجیکٹ میں دیامر بھاشا ڈیم مہمند ڈیم داسو ہائیڈرو پاور پرا جیکٹ، تا کرم تنگی ڈیم، نائی، ہار پو پاور پراجیکٹ شامل ہیں اگر بھا شاد یا مرڈیم کی بات کریں تو یہ ڈیم اپنی نوعیت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا کنکریٹ رولر ڈیم سمجھا جاتا ہے یہ ڈیم دریائے سندھ کے اوپر چلاس سے 7 کلومیٹر کے فاصلے پر بھاشا کے مقام پر تعمیر ہورہا ہے جس میں تقریباً 80لاکھ ایکڑفٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس سے تقریبا 4800 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ اس کی تعمیر سے تربیلا ڈیم میں ریت جمع ہونے کے عمل میں کمی کی وجہ سے اس کی کار آمد زندگی میں بھی 35 سال کا اضافہ ہو جائیگا تا ہم اس کی تکمیل کے لئے مزید دس سال اور سرمایہ کاری درکار ہے۔  بھاشا ڈیم کے ساتھ ساتھ
 داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بھی اہمیت کا حامل ہے یہ داسو سے چلاس کی طرف 7 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ دیامر پراجیکٹ سے کافی فاصلے پر دریائے سندھ پر بنایا جارہا ہے۔ جس سے تقریباً 4320 میگا واٹ پن بجلی پیدا ہوگی۔ اس کے پہلے مرحلے میں 6 یونٹس کے ذریعے 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی، جبکہ اگلے مرحلے میں اسکی گنجائش دوگنی کی جائیگی، یہ ڈیم اگلے چار سالوں میں مکمل ہو جائے گا۔ اس کا تخمینہ لاگت تقریبا 510 ارب روپے ہے۔ جس میں 218 بلین کا زرمبادلہ بھی شامل ہے۔ سکی کناری ڈیم پر بھی تیزی کا م جاری ہے یہ خیبر پختونخوا کی وادی کاغان میں سی پیک منصوبہ کے تحت بنایا جارہا ہے جس سے ملک کو اضافی بجلی حاصل ہو سکے گی۔ خیبر پختو نخوا میں ہی مہمند ڈیم پر بھی کام شروع کیا جا چکا ہے اس کا پر انا نام منڈا ڈیم ہے۔ جو دریائے سوات کے اوپر پشاور سے شمال کے جانب 37 کلو میٹر کے فاصلے پر قبائلی ضلع مہمند میں تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس کی تعمیر سے 740 میگاواٹ پن بجلی کے علاوہ 15000 اراضی سیراب ہوگی۔ اس کی تعمیر سے مجموعی طور پر 5 ارب کیوسک پانی ذخیرہ ہوگا۔ تقریباً 20 ارب بجلی کی پیداوار اور تقریباً 8 کروڑ روپے سیلاب سے بچاؤ کی مد میں حاصل ہوں گے۔ یہ پتھر اور کنکریٹ سے بنایا جائے گا اور اس کی تعمیر کے بعد خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔