دلوں کو اطمینان دلانے والی افطاریاں 

اس دفعہ رمضان آیا ہے تو دنیا بھر میں مہنگائی کی ایک نئی لہر کو بھی ساتھ لایا ہے ویسے تو رمضان میں ہر وہ ضرورت کی شے جو روزہ کھولنے یا بند کرنے میں ضروری خوراک کے طور پر لی جاتی ہے خود بہ خود مہنگائی  والے خانے میں چلی جاتی ہے ایسا خانہ جس کے اردگرد موٹے شیشے لگے ہوتے ہیں دور سے دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی ہاں ہاتھ لگانا منع ہے اگر ہاتھ لگانا ہی ہے تو ہاتھوں میں معمول سے زیادہ کرنسی کا ہونا لازمی ہے‘ نہ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے حالانکہ اس کا جواب بڑا آسان ہے لیکن لکھنا بہت مشکل ہے کیونکہ ایک اور صفت بھی ہے جس سے ہم محروم ہوتے جارہے ہیں اور وہ ہے برداشت‘ اگر لکھے ہوئے الفاظ سے کسی کے دل کو ٹھیس پہنچ گئی تو بات زیادہ بگڑ سکتی ہے خواہشات تو لاتعداد ہوتی ہیں اس پر کسی کا بس نہیں ہوتا اور ان خواہشوں میں ایک خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ کاش کچھ تو سستا ہو کہ غریب اور سفید پوش انسان اپنے اور اپنے بچوں کو فروٹ کھلا سکے اچھا کھانا پکا سکے اور خوشحالی سے نہ سہی سادگی اور اطمینان سے زندگی گزار سکے۔یہ افسوس ایسا ہی نہیں ہوتا بلکہ معاشرے میں بہت سی اکائیوں کی بگاڑ شروع ہو جاتی ہے‘ اسی بگاڑ کا اثر براہ راست عام طبقے تک پہنچ جاتا ہے رمضان میں افطاریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے وہ افطاریاں تو دل کو اطمینان دلاتی ہیں جو غریبوں کیلئے سجائی جاتی ہیں مسافر‘ نادار‘ بے گھر اور بے سروسامان لوگوں کیلئے یہ افطاری ان کیلئے نعمت مترقبہ سے کسی طور کم نہیں ہوسکتی لیکن ایک اور افطاریاں وہ ہوتی ہیں جو امیر طبقہ اپنے امیر ترین دوستوں‘ رشتہ داروں کیلئے سجاتا ہے اگرچہ معاشروں میں یہ اکٹھ بھی ایک نہایت ہی ضروری اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن پہلے تو لاکھوں روپوں سے دنیا کی ہر نعمت افطاری کے وقت سجائی جاتی ہے اور اس کے بعد پلیٹس بھر بھر کر کھانے کیلئے اٹھائی جاتی ہیں جن کو آدھا بھی نہیں کھایا جاسکتا اور باقی کا ڈسٹ بن کی نذر ہو جاتا ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں افطاریاں ضرور کرنا
 چاہئیں جن کو قدرت نے نعمتوں سے نوازا ہے ان کو ضرور استعمال کرنا چاہئے لیکن اگر سادگی کو رب کا حکم سمجھ کر بجا لائیں تو کتنا ہی کھانا اور اناج بچ جائے جو رب کے دوسرے بندوں کے کام آجائے مغربی ممالک میں کھانے نہایت سادہ ہوتے ہے صحت کے پیمانوں کا خیال رکھا جاتا ہے گھی میں لتڑی ہوئی اشیاء کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے صحت مند غذا اورکم غذا کھانے کو بہترین صحت اور بیماریوں سے دور سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے دسترخوان ایسے بھرے ہوتے ہیں جن کو ہمارا جسم قبول تو کر لیتا ہے لیکن ساتھ ہی کئی قسم کے صحت کے مسائل بھی ہمیں تحفتاً دینا نہیں بھولتے، مغربی ممالک میں موٹاپے کا مرض نہ ہونے کے برابر ہے  اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا اتنا ہی کھانا ہے جتنی جس کی ضرورت ہے اگر ہم اپنی افطار پارٹیوں میں اس لئے سادگی اختیار کریں کہ خدا کی خوشنودی حاصل ہو‘ صحت مندی حاصل ہو اور ہماری نعمتوں میں غریبوں کا حصہ بھی شامل ہو جائے تو یہ کتنا ہی بہترین حل اور حاصل ہو‘ وہ حاصل جس کا اجر ہمیں نہ صرف دنیا میں ملتا ہے بلکہ آخرت میں ہم رب کے خاص لوگوں میں شامل ہونگے میں رمضان میں افطاری کی دعوت کبھی بھی قبول نہیں کرتی روزہ افطار کے بعد صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اپنے گھر کے علاوہ کسی ہوٹل یا کسی اور گھر میں بیٹھا جاسکے‘ لیکن جو کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے وہ بہت ناقابل قبول ہوتا ہے رب کا خوف دامن گیر ہو جاتا ہے حد سے زیادہ اخراجات اور اناج کو فراوانی سے ضائع کرنا ناپسندیدہ عمل ہے، اب جہاں تک رمضان المبارک میں مہنگائی بڑھنے کی بات ہے تو  اور حد سے زیادہ منافع کمانا کسی طور بھی  مناسب نہیں‘ منافع اتنا کمائیں جو جائز ہے اور آپ کی ضروریات کو پورا کر دیتا ہے ایسا منافع نہیں کہ آپ کی اس دوکان میں رکھی ہوئی اشیاء کو کہ جن کی روزہ رکھنے والوں کو اشد ضرورت بھی ہے حسرت اور یاس سے  دیکھیں اور ان کی جیب آپ کی بلند قیمتوں کو برداشت نہیں کرسکتی رب کا فرمان ہے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘ کیا  ہم اس برکتوں اور رب کی عنایتوں کی خوشبوؤں والے مہینے میں اپنی اشیاء کو سستا نہیں کرسکتے۔