اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی تاریخ

05اپریل1913ء کو پشاور میں اسلامیہ کالجیٹ سکول کے نام سے ایک اہم درسگاہ کا قیام عمل میں آیاتھا جو کہ آج یونیورسٹی بن چکی ہے۔ اسلامیہ کالج یونیورسٹی جوکہ درہ خیبر کے  سنگم پر واقعہ ایشیاء کی مشہور قدیمی درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قدیمی درسگاہ نے 2013ء میں 100سال مکمل کر لئے تھے جبکہ اس طرح سے اس درسگاہ کو ایشیاء کی 100سالہ تاریخ کی حامل یونیورسٹی کا درجہ مل گیاتھا جو کہ خیبر پختونخوا اور خصوصاً پشاور اور اہل پشاورکیلئے قابل فخر بات ہے۔اہل پشاور کو ایک اور اعزاز حاصل ہوگیا ہے اور وہ اعزاز یہ ہے کہ پشاور شہر دنیا کے ان گنے چنے ملکوں و شہروں میں شامل ہوگیا ہے جن کی تعلیمی درسگاہیں ایک صدی یا اس سے زیادہ عرصہ سے قائم کی گئیں ہیں۔ جہاں تک پشاور شہر کی بات ہے تو اس کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کی فوجی اہمیت سے بھی کسی کو انکار نہیں جبکہ سیاسی حیثیت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے، درہ خیبر کی موجودگی نے بھی اسے دوسرے شہروں سے ممتاز رکھا ہوا ہے، جو برصغیر پر حملہ آوروں کی راہ گزر رہا ہے، کہتے ہیں کہ آج سے تقریباً دو ہزار سال قبل گندھارا کے حکمران شہنشاہ ”کشن“ نے اس شہر کی بنیاد رکھی اور اس کا نام ابرش پوررکھ دیا تاہم یہاں راج کرنے والے حکمرانوں نے مختلف ادوار میں اس کے نام تبدیل کئے۔پشاور شہر میں کئی بڑی یونیورسٹیاں اور کالجز ہیں جن میں پشاور یونیورسٹی، ایڈورڈکالج اور اسلامیہ کالج سرفہرست ہیں۔اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بیسویں صدی کے آغاز پر بر صغیر و ہند کے شمال مغربی داخلی حصہ سے کچھ فاصلہ پر خشک و بنجر اراضی کے ایک ٹکڑے پر دارالعلوم اسلامیہ صوبہ سرحد کے قیام نے مسلم عہد کو ایک نئی روشنی سے منور کیا۔ پانچ اپریل 1913ء کو اسلامیہ کالجیٹ سکول کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سرہاؤکوٹ بٹلر نے کہا کہ ایشیاء کی مشہور شاہراہ اور درہ خیبر کے سنگم پر کھڑا ہو کر میں اقرار کرتا ہوں کہ اسی سکول و کالج سے اٹھنے والی علم کی روشنی نہ صرف اس صوبے اور سرحدوں کو منور کرے گی بلکہ پورے ایشیاء کو متاثر کرے گی۔اسلامیہ کالج کے قیام کو عملی جامہ اکتوبر 1913ء میں سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان نے پہنایا‘ اسی احساس نے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کی خواہش کو جنم دیا۔ جہاں مذہبی اور سائنسی تعلیمات کا حصول ایک چھت تلے ممکن ہوا۔ اپریل 1911ء میں اسلامیہ کالج کے قیام کیلئے عملی کام کا آغاز ہوا جس کیلئے اس وقت ایک نگران کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان کو کمیٹی کا اعزاز ی سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ کمیٹی نے چندہ اکٹھا کر نے کی مہم شروع کی، علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلباء نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ 12اپریل 1911ء کو چندہ اکٹھا کرنے کے حوالے سے ایک تقریب عبدالکریم خان اندرابی کی رہائش گاہ پر منعقد کی گئی جس میں عبدالکریم خان اندرابی نے دس ہزار روپے کی خطیر رقم دی جبکہ سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان نے ایک ہزار روپے کا حصہ ڈالا اور اسی طرح دیگر لوگوں نے بھی اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دیاجن میں کریم بخش سیٹھی، خوشحال خان اور غلام حیدر خان الکوزئی کے نام شامل ہیں۔ چھ ماہ کے قلیل عرصہ میں پانچ لاکھ روپے جمع ہوگئے جبکہ 1914ء میں یہ رقم بڑھ کر پندرہ لاکھ روپے ہوگئی۔ کالج کی عمارت کی تعمیر کے حوالے سے مناسب اراضی کیلئے سرصاحبزادہ عبدالقیوم خان اور دیگر اشخاص نے کافی کوششیں کیں اور تین مجوزہ جگہوں پر کالج کو نامنظور کیا گیا جن میں داؤدزئی روڈ، کوہاٹ روڈ، رجڑ بازار شامل ہیں۔ان جگہوں کی نامنظوری کے بعد موجودہ اراضی کو اسلامیہ کالج کیلئے منتخب کیا گیا۔دارالعلوم اورمسجدکی بنیاد ممتاز مجاہد حاجی صاحب ترنگزئی نے رکھی جبکہ آرٹس اور سائنس کے شعبہ جات کی بنیاد اسی روز چیف کمشنر پشاور سرجارج روز کیپل نے رکھی تھی اور افتتاحی تقریب میں 25سے 30ہزار افراد نے شرکت کی تھی اکتوبر 1913ء میں جب کالج شروع ہوا تو طلباء کی تعداد صرف 33تھی لیکن آج تقریباً 110 سال بعد کالج اب یونیورسٹی بن چکی ہے ہر سال اس ادارے میں پانچ ہزار سے زائد طلباء اور طالبات علم کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں۔ اس تعلیمی ادارے سے اب تک 55ہزار سے زائد لوگ عملی میدان میں نکل کر ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اسلامیہ کالج میں داخلے لینے والے سب سے پہلے طالب علم خورشید ولد صاحبزادہ خلیل الرحمان تھے جوکہ 1949ء میں صوبہ کے پہلے گورنر بنے۔جبکہ سابقہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس فخر عالم کالج سے فارغ ہونے والے پہلے طالب علم تھے۔اسلامیہ کالج نے ہزاروں ایسی شخصیات پیدا کیں جنہوں نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کیااور قوم کی خدمت کی۔جن میں سابق صدر غلام اسحاق خان، سابق گورنر میجر جنرل محمد اعظم، سابق ایئر چیف مارشل انور شمیم، ایئر چیف مارشل(ر)عباس خٹک، سول سرونٹ محمد اعظم خان، سابق کپتان قومی ہاکی ٹیم بریگیڈئیر حمیدی، رشید جونیئر، جہانزیب، قاضی محب، سابق چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ جسٹس عثمان علی شاہ، سابق گورنر علی جان اورکزئی، سابق گورنر مسعود کوثر اور لاتعداد لوگ بڑے بڑے عہدوں پر مختلف شعبہ جات اور محکموں کے اندر امور انجام دے چکے ہیں پشاور کے ایک عالم اور اسلامیہ کالج کے بانی سیٹھ کریم بخش نے مسجد کی تعمیر کیلئے اس وقت ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا تھا یہ مسجد آج بھی ایک تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔کالج کا پہلا پرنسپل پروفیسر ایل ٹیپنگ تھا اور 1913ء میں جب کالج کا آغاز ہوا تو صرف دس اساتذہ تھے آج اساتذہ کی تعداد تین سو اور مکمل سٹاف کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے۔اسلامیہ کالجیٹ سکول نے اسلامیہ کالج جبکہ اسلامیہ کالج نے یونیورسٹی کیمپس کے اندر اسلامیہ کالج یونیورسٹی سے پہلے زرعی یونیورسٹی اور انجینئرنگ یونیورسٹی کو جنم دیا ہے۔اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور اور اہل پشاور کیلئے فخر کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں ایک نہایت اہم مقام کا حامل تعلیمی ادارہ ہے۔جس کی  تعلیم کے شعبے میں خدمات دوررس اہمیت کی حامل ہیں اورجس تیزی کے ساتھ یہ ترقی کرتا جارہاہے مستقبل میں بھی خدمات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔