کینیڈا میں رمضان کا اہتمام

مغربی دنیا میں بھی رمضان المبارک کا مہینہ انتہائی عقیدت اور جوش و خروش سے منایا جاتا ہے‘ افطاراور سحری کا اہتمام بے انتہا جذبے کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ کینیڈا میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کینیڈا کے ہر شہر میں یہ تعداد 3/2 ملین کو چھو رہی ہے اب ہر شہر میں دو سے تین مساجد موجود ہیں جہاں نہ صرف درس و تدریس کا کام ہوتا ہے بلکہ پانچ وقت نماز بھی پڑھائی جاتی ہے خواتین کے لئے ہر مسجد میں الگ سے کمرے بنے ہوئے ہیں ان کے راستے بھی الگ ہیں جہاں خواتین مسجد میں بیٹھ کر اپنی عبادات آسانی سے کرلیتی ہیں کینیڈا کی مساجد نے میت کو غسل دینانماز جنازہ پڑھانا اور میت کو آخری منزل تک پہنچانے کے کام کی ذمہ داریاں بھی اپنے ذمہ ہوئی ہیں کیونکہ میت کو گھر پر رکھنے کا قانون کینیڈا میں موجود نہیں ہے‘ اس لئے ہسپتال سے سیدھا مسجد ہی لے جایا جاتا ہے‘رمضان کے آغاز کے ایک ہفتہ قبل انگریزی سٹورز جو کھانے پینے کی اشیاءبیچتے ہیں ان پر رمضان سیل لگ جاتی ہے‘ کرسمس کی ہی طرح ہر چیز سستے داموں بکتی ہے ہر سامان پاکستانی اور ہندوستانی دوکانوں پر بھرا پڑا ہوتا ہے اور اتنا صاف ستھرا کہ یہ دیکھ کر آرزو ہوتی ہے کہ کاش ہم ایسے ہی رہیں البتہ پاکستانی دوکانوں پر مہنگائی کا شائبہ ضرور ہوتا ہے شاید ٹرانسپورٹ کے اخراجات اور دوسرے ان دیکھے اخراجات وہ اپنے گاہکوں سے نفع کی صورت میں لینا پسند کرتے ہیں کبھی یہاں وہ زمانہ تھا کہ بیسن ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا اب گلی گلی میں رمضان میں استعمال ہونے والی ہر شے وافر مقدار میں موجود رہتی ہے‘ روح افزاء‘ کھجور‘ بیسن‘ چنا‘ مصالحے‘ پراٹھے‘ حتیٰ کہ تخم ملنگا بھی یہاں مل جاتا ہے وہ ایک محاورہ ہے کہ چڑیا کا دودھ نہیں ملتا اور سب ہی مل جاتا ہے‘ شاید چڑیا دودھ دیتی تو وہ بھی مل جاتا‘ جیلی‘ فرنی‘ سوڈا‘ ڈالڈا گھی‘ کسان گھی‘ پاکستان کے آلو‘ ساگ‘ بھنڈی‘ ٹماٹر حتیٰ ہ پاکستانی مرچیں بھی یہاں وافر دستیاب ہیں کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ بھئی پاکستان اتنا زیادہ پیارا تھا تو پھر مغرب میں رہنے کا کیا جواز ہے لیکن پاکستانی خواتین خوشی سے نہال ہو جاتی ہیں اور باقاعدہ اس بات کو بتایا جاتا ہے کہ یہ سبزی‘ یہ فروٹ پاکستان کا ہے‘ پاکستان سے مالٹے وافر یہاں آتے ہیں اور آم کا موسم ہو تو آم کی پیٹیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں آپ حیران نہ ہوں یہ وہ پیٹیاں نہیں جن میں ان گنت آم ہوتے ہیں یہ گتے کی بنی ہوئی ڈبے نما‘ پیٹیاں ہوتی ہیں جن میں صرف 6آم ہوتے ہیں شاید پاکستان کے لوگ یہاں اپنے دل کو خوش کرنے کیلئے اسکو پیٹی کا نام دے دیتے ہیں‘ کیونکہ اس نام ے ذرا بڑے پن کا احساس ہوتا ہے ،رمضان بازار یہاں بھی لگتے ہیں جن میں رمضان سے لیکر عید تک کی ہر قسم کی خریداری کی جاسکتی ہے‘ ان بازاروں میں بیٹھ کر افطاری کی جاتی ہے گرم گرم سموسے تلے جارہے ہیں‘ پکوڑے اور چناچاٹ بک رہی ہے‘ برگر چاول اور بریانی غرض افطاری سے متعلق ہر سالن یہاں موجود ہوتا ہے افطاریاں بڑے پیمانے پر کروانا یہاں عام بات ہے‘ زیادہ تر افطاریاں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کروائی جاتی ہیں‘ اس کیلئے رمضان کے آنے سے بہت پہلے ہی بکنگ کروا دی جاتی ہیں کیونکہ دیسی کھانوں کیلئے ہوٹل ریستورانوں کو بھی پوری تیاری کرنا پڑتی ہے‘ گھروں میں بھی افطاریاں کی جاتی ہیں زیادہ تر کھانے کاسامان باہر سے آرڈر دیکر منگوایا جاتا ہے اس کیلئے بھی بکنگ پہلے سے کروائی جاتی ہے کتنی ہی افغان اورپاکستانی عورتیں گھروں پر آرڈر پر کھانے تیار کرتی ہیں اور خواہش مندوں کو فروخت کرتی ہیں‘ سموسے کچوریاں‘ پراٹھے‘ رول تو عام طور پر فریز ڈبوں میں بند فروخت ہوتی ہیں وہ سب خواتین ہی گھروں پر بناتی ہیں اس طرح یہ کام اچھی خاصی انڈسٹری کی صورت اختیار کرچکا ہے وہ تمام ضابطے اور اصول اس کام کیلئے اپنائے جاتے ہیں جو کینیڈا میں انگریزی قوانین کے مطابق ہیں‘ یعنی صفائی ستھرائی‘ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت‘ پیکنگ کرنے کی خاص مہارت وغیرہ وغیرہ‘ ہر بکنگ کیلئے ایڈوانس میں پیسہ دینا پڑتا ہے جو لوگ اس بزنس میں ہیں وہ بھی بہترین کھانے بنانے میں مہارت رکھتے ہیں ورنہ تو دوسری دفعہ ان کو کوئی گھاس بھی نہ ڈالے‘ یہاں کتنے ہی ایسے ریستوران ہیں جو سحری کیلئے کھلتے ہیں اور سحری کے پکوان پیش کرتے ہیں‘ جولوگ اکیلے رہتے ہیں یا سخت جابز کی وجہ سے گھروں میں کھانا نہیں بنا پاتے وہ ان ہی ریستورانوں سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں‘ اذان کی آوازیں تو نہیں آتیں لیکن گھڑی کی سوئیاں ہی روزہ کھولنے اور روزہ بند کرنے کے کام آتی ہیں ٹیلی فونوں پر اذان کی آواز کو ٹائم فکس کرکے سنا جا سکتا ہے‘ مساجد کم ہیں اور ہر گھر محلے کے قریب نہیں ہیں اس لئے یہاں کے مسلمانوں کو اب عادت ہے۔ مسلمانوں نے مغرب کی دنیا تو اپنالی ہے لیکن اپنی آنے والی نسل کو اسلام سے قریب تر رکھنے کیلئے وہ بہت کوشش کرتے ہیں بلکہ پاپڑ بیلتے ہیں‘ جس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہتے ہیں‘ مغرب میں رہ کر نئی نسل کو اسلام سے قریب رکھنے کیلئے یہاں ماں باپ کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے۔