معیشت کی بحالی 

ملک میں جاری معاشی بحران  کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت ہر حربہ آزما رہی ہے اور پوری کوشش ہے کہ اس مشکل دور سے ملک کو نکالا جائے اور کئی شعبوں میں کامیابیاں بھی نصیب ہوئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی زمین میں قدرت نے ہمیں بہت سے خزانوں سے نوازا ہوا ہے لیکن کیاوجہ ہے کہ ہم انھیں اپنے لیے ابھی تک نکال ہی نہیں پائے ہیں۔ سینڈک، ریکوڈیک کے علاوہ بدین میں تیل اور گیس کے ذخائر ہمارے کب کام آئیں گے۔ تھر کے کوئلے کے بارے میں بہت سی خوشخبریاں دی جاتی رہیں کہ یہ سو سال تک ہماری توانائی کے استعمال کے لیے کافی ہیں۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ہم ملکی وسائل سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کرسکے۔ اگر ملکی وسائل سے بھر پور استفادہ کیا جائے تو آسانی کے ساتھ معیشت کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے لگائے گئے اندازوں کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو 7470ارب روپے کا سالانہ ہدف حاصل کرنے میں 130 ارب روپے کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان حالات میں یہ سمجھنا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی یا کسی دوست ملک کی فوری امداد سے ہماری مشکلات ختم ہو جائیں گی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ ہم اگر اس بحران کو اصلاحات کے ایک موقع کے طور پر دیکھیں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سیاسی قیادت کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر معیشت کی بحالی کیلئے کم از کم دس سالہ متفقہ معاشی پالیسی کا ڈرافٹ تیار کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں ایسا طریقہ کار بنایا جا سکتا ہے جس کے تحت حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود معاشی پالیسی پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری رہے۔ اس حوالے سے ماہرین  پر مشتمل اعلی سطحی با اختیار کمیٹی بھی ماہرین پر تشکیل دی جاسکتی ہے۔ طویل المدتی بنیادوں پر معیشت کی بحالی کیلئے برآمدات میں اضافہ، درآمدات میں کمی، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری، زرعی پیداوار میں اضافہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کا فروغ اور آبادی  اور وسائل میں توازن کو برقرار رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کو غیر ملکی خریداروں یا سرمایہ کاروں کیلئے  زیادہ پر کشش ملک بنانا بھی  ضروری ہے۔ تاکہ ہمارے ایکسپورٹرز کو برآمدی آرڈرز کے حصول میں مشکلات کا سامنا  نہ ہو۔ ایکسپورٹ انڈسٹری پر عائد سیلز ٹیکس بھی برآمدات میں اضافے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ  ہے۔ اس سے قبل حکومت نے اس سلسلے میں 72 گھنٹوں کے اندر سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کیلئے فاسٹر کا نظام متعارف کرایا تھا لیکن اب وہ بھی کام نہیں کر رہا اور ایکسپورٹرز کو ریفنڈز کی ادائیگی میں کئی کئی ماہ کی تاخیر معمول بن چکی ہے۔ برآمدات یا صنعتی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے ہمارا دیرینہ دوست چین ایک بہترین مثال ہے جس نے معیشت کو فروغ دینے کیلئے حکومت یا بیورو کریسی کی مداخلت کم کر کے بہترین نتائج حاصل کئے ہیں۔ چین کی معاشی ترقی کے معمار ڈینگ ژیاو چنگ نے ابتدائی طور پر بیجنگ اور چار دیگر علاقوں میں خصوصی اقتصادی زون قائم کئے تھے، اگلے پانچ سال میں چین کے اقتصادی زونز کی تعداد بڑھ کر 35 ہو گئی تھی جنہوں نے چین کی برآمدات بڑھانے اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔سی پیک نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم اس حوالے سے اگر صحت مند مقابلہ سازی کی فضا پیدا کریں تو نا صرف ہم اپنی صنعتی پیدوار اور اس کے حجم میں اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ اس سے علاقائی سطح پر موجود عدم مساوات کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ہمیں اپنی زرعی پیداوار بھی مزید بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ کہنے کی حد تک پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود ہم ہر سال تقریبا چھ سے آٹھ ارب ڈالر کی گندم، کپاس، کھانا پکانے کا تیل، دالیں اور دیگر زرعی اجناس بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں۔ اس لئے جب تک ہم اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں کریں گے تب تک ہمارے ملک میں خوراک کی قلت رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں ایسی تجاویز ہیں جن پر عمل کر کے ہم ملک کی ڈوبتی کشتی کو منجدھار سے نکال سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت معاشی ترقی کے ایجنڈے پر متفق ہو اور سیاسی اختلاف  کو بالائے طاق رکھا جائے۔