پشاور کی93سالہ تاریخ کا سیاہ باب

اپریل کے مہینے کی23 تاریخ تھی اور پشاور شہر کے رہنے والوں پر یہ تاریخ موت کی ہولناکیاں لے کر آئی تھی 1930 کا سن تھا انگریز کا راج تھا گزشتہ دو سو سال انگریز ہندوستان پر پورے غیض و غضب کے ساتھ حکومت کر رہا تھا ماضی کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے غیور اور بہادر عوام لاکھوں مرتبہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے تھے لیکن دنیا بھر میں انگریزوں نے جتنے بھی قتل عام کئے قصہ خوانی کا قتل عام ان میں ایک غمگین کر دینے والا واقعہ تھا جس نے نہ صرف پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو صدمے اور درد و غم میں مبتلا کر دیا بلکہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کو اک نیا موڑ دیا‘ ہندو سکھ مسلمان برطانوی راج کے غلام تھے اور غلامی کی زندگی میں انکی  وہی حالت تھی جو اک محکوم اور لاچار قوم کی ہوتی ہے ان کے دلوں میں انگریز ظالم آقاؤں کیلئے نفرت بددلی اور غصے کے شدید ترین جذبات پائے جاتے تھے‘ قصہ خوانی بازار میں فائرنگ سے سینکڑوں مسلمانوں کے قتل عام کا واقعہ تحریک خلافت کی حمایت اور ساردھاایکٹ کی مخالفت کی ایک کڑی تھا‘ اس وقت کے وائس رائے لارڈ ارون نے ان دنوں ساردھا ایکٹ 28ستمبر1929کے تحت ہونے والے شادی قانون پر ممکنہ احتجاج کے بچاؤ کے پیش نظر مہینوں پہلے محب وطن لوگوں کی گرفتاریاں شروع کر رکھی تھیں جن میں مسلمان سکھ اور ہندو پشاور شہر کے رہنے والے لوگ تھے ہر بیلاسی ساردھا ہندوستان کا جج تھا اس نے قانون سازی کیلئے لڑکے اور لڑکیوں کی عمر کا تعین کرکے یکم اپریل1930 سے اس قانون کو نافذ العمل کردیا اور ہندوستان میں رہنے والے ہر مذہب پر لاگو کردیاگیا  ہندوستان میں رہنے والی تمام اقوام بالخصوص پشاور شہر میں اس قانون کو لے کر تحریک خلافت اور کانگریس کے تحت ہر روز احتجاج اور جلسے ہونے لگے جس میں انگریز حکومت نے کسی بھی ممکنہ احتجاج سے بچاؤ کے پیش نظر محب وطن پشاوریوں کی مہینوں پہلے سے ہی گرفتاریاں شروع کر رکھی تھی اور ان کوسخت ترین سزائیں دینے کا سلسلہ ہر روز کے گزرنے کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جارہا تھا قصہ خوانی کے قتل عام کے خونین واقعے کا فوری محرک دو مسلمان رہنماؤں کی گرفتاری سے شروع ہوا جن کے نام اللہ بخش برقی اورغلام ربانی سیٹھی تھے اس وقت کے انسپکٹر علاؤالدین ان رہنماؤں کو گرفتار کرنے کیلئے ان کے گھر میں ہی بنے ہوئے  پارٹی کے دفتر میں پہنچے،دونوں رہنماؤں نے بہت ہی بردباری سے خود ہی اپنے آپ کو گرفتاری کیلئے پیش کردیا دونوں قیدیوں کو پولیس کی لاری میں بٹھا دیا گیا اور ہجوم اس لاری کے پیچھے پیچھے چل پڑا، وقت کے ساتھ ساتھ ہجوم کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ایک موقع پر ہجوم میں اشتعال اس قدر بڑھا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ وہ اپنے رہنماؤں کو خود تھانے تک پہنچائینگے،علاؤالدین سب انسپکٹر ہجوم کے تیور جان کر اس بات پر رضا مند ہوگیا اور قیدیوں کو ہجوم کے حوالے کر دیا،تھانے کے اندر پولیس نے ہزاروں لوگوں کو دیکھا تو اندر سے تالے لگا دیئے انہوں نے پہلے تو تھانہ کھولنے اور قیدیوں کو اندر کرنے سے انکارکردیا لیکن بعد میں انسپکٹر علاؤالدین کے کہنے پرتھانہ کھول کر مسلمان رہنماؤں کو قیدی بنادیاگیا۔ فوری طور پر انگریز فوج ہر طرف سے جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور اپنے اپنے بیانیے کو ظاہر کرنے لگی ہجوم پرامن تھا کوئی ہتھیار ان کے پاس نہیں تھے صرف جوشیلے نعرے لگ رہے تھے اس وقت کا ڈپٹی کمشنر میٹ کاف مسلمان دشمنی میں پورے پشاور میں مشہور تھا۔ آج23اپریل1930ء کو بھی اسکے ارادے انتہائی خطرناک تھے فوجی گاڑیوں کو ہدایات جاری کردی گئیں وہ برق رفتاری سے ہجوم کو کچلنے کیلئے استعمال ہونے لگیں درجنوں عام شہری جو کچھ دیر پہلے اپنے رہنماؤں کو خود تھانے تک پہنچانے کیلئے آئے تھے گاڑیوں سے کچلے گئے۔پشاور کے عوام کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا،لوگوں میں افراتفری کا عالم تھا ہر طرف خون تھا لوگ فوری طور پر زخمی اور مرجانے والے لوگوں کو اٹھانے کیلئے آگے بڑھے لیکن ایسا کرنے نہیں دیا گیا اس جگہ سے رضا کاروں نے ستر(70) لاشیں اٹھائیں زخمیوں کے لئے ہسپتالوں کے راستے بند کر دیئے گئے اس واقعے کے ردعمل کے طور پر پشاور شہر کے ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا اور قصہ خوانی بازار پہنچ گئے جہاں ایک بار پھر ایسی خون کی ہولی کھیلی گئی کہ دنیا کے بڑے بڑے قتل عام میں یہ واقعہ بھی تاریخ کا سیاہ حصہ بن گیا‘ بکتر بند گاڑیاں‘ مشین گنیں قصہ خوانی بازار میں اپنے پیاروں کی موت پر احتجاج میں جمع ہونے والے عام پشاور کے شہریوں پر کھول دی گئیں انگریز سپاہی مسلمانوں کو غیرت دلاتے کہ بہادر ہو تو سامنے آؤ اورپھر وہ غیرتمند پشاور کے سپوت ایک ایک کرکے سامنے آتے گئے اور ان کو گولیوں سے چھلنی کرتا جاتا رہا اس وقت تک کہ جب ایمونیشن ختم ہوگیا سینکڑوں شہریوں کی شہادتیں ہوئیں زخمیوں کو سڑک پر ہی تڑپتا اور مرتا ہوا چھوڑ کر انگریز فوج واپس چلی گئی۔قصہ خوانی بازار خون میں نہاگیا نہ کوئی لاشیں اٹھانے والا تھا اورنہ زخمیوں کی آہ وزاری پر مرہم رکھنے والا موجود تھا، سینکڑوں لاشوں کو انگریز اپنی فوجی گاڑیوں میں غائب کرنے میں کامیاب ہوئے،اخبارات میں خبریں اتنی سنسرزدہ لگائیں کہ انگریز فوج معصوم اور بے گناہ اور نہتے عوام گناہ گاہ ٹھہرائے گئے ریڈیو ٹیلی ویژن کا وجود نہ تھا اخبارات تک رسائی کم لوگوں کو تھی انگریزوں نے جس طرح نہتے عوام کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کیا اور سروں کے نشانے لے کر زندگیوں کا خاتمہ کیا پشاور کی تاریخ کا ایک بدقسمت ترین باب ہے23 اپریل1930 کے خونیں واقعے کے بعد پشاور کے شہریوں پر سختی اور مظالم بڑھ گئے خبروں کو مسخ کر دیا گیا انکوائری کمیٹیوں کو آزادانہ طورپر کام نہیں کرنے دیا گیا انکوائری کمیٹیوں کے سامنے پیش ہونیوالے اور سچ بولنے والے گواہوں کو روکا گیا اگر کوئی انگریز کے ظلم سے بچ نکلا تو بعد میں اسکو قتل کر دیا گیا یا جھوٹے الزامات میں جیل میں ڈال دیا گیا۔اس خون چکا واقعے کی گونج نے برطانیہ کے ایوانوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ پشاور شہر کے ہر گھر سے جنازے اٹھے اور جہاں جنازہ نہیں تھا وہ کبھی واپس بھی نہ آیا، قصہ خوانی کے قتل عام کا یہ واقعہ آگے چل کر بہت سارے ظلم و ستم کے واقعات کی کڑی بنتا چلا گیا اسی واقعے کے نتیجے میں برطانیہ کے ایوانوں نے گول میز کانفرنسز کا انعقاد کیا۔ اسی واقعے نے بعدازاں علامہ محمد اقبال کے خطوط میں دردوغم کے الفاظ بن کر قائداعظم محمد علی جناح کو اس بات پر مجبور کر گیا کہ وہ شمالی مغربی ہندوستان کو پاکستان میں شامل کرنے کی پرزور حمایت کریں، قصہ خوانی بازار کا قتل عام عالمی تاریخی ابواب کے ان بڑے قتل غارت میں شامل ہے جو برطانیہ  نے دنیا کے دوسرے ممالک میں ظلم و ستم کی انتہا کرتے ہوئے کئے تھے۔اس واقعے کو آج 93 سال ہوچکے ہیں پشاور کی تاریخ کا آج بھی یہ سیاہ ترین باب ہے،غیور شہریوں نے جو لہو کے نذرانے پیش کئے تھے آج وہ آزاد وطن پاکستان کا ترانہ بن چکے ہیں ہماری نئی نسل کو خاص طور پر اپریل کا مہینہ1930 کا سن اور اپنے شہریوں کی اس بے پناہ عظیم قربانی کو ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے میں نے اس واقعے پر اپنی تین چار سالہ تحقیق کو لے کر مکمل کتاب تحریر کی ”قصہ خوانی کاقتل عام“ تاکہ تاریخ کے ان شہداء کی قربانیوں  کی قدر کرنے والوں میں میرا بھی اک چھوٹا سا حصہ شامل ہوجائے اور آنے والی نسلیں اس کے اسباب محرکات اور اثرات کا جائزہ لے سکیں۔