عید الفطر کا سنتے ہی ساری دنیا کے مسلمانوں کے ذہن میں سب سے پہلا لفظ جو آتا ہے وہ ہے خوشی اور کیوں نہ ہو کہ برکتوں والے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد عید کی صورت میں جو خوشیوں کی سوغات ملتی ہے اس کی اہمیت ایک مسلمان روزہ دار ہی سمجھ سکتا ہے۔اس خوشیوں بھرے دن کیلئے ہر گھر میں بڑھ چڑھ کر اہتمام کیا جاتا ہے اور اس اہتمام میں گھر کی صفائی سجاوٹ اور سب سے بڑھ کر کپڑوں کی تیاری سر فہرست ہے۔عید کی آمد ہے چند ہی دن بعد جب فرزند ان توحید ایک ماہ کی روح پرورمشقت کے بعد اس کی اجرت پائیں گے تو وہ کتنے نہال اور شادماں ہوں گے کہ اللہ رب العزت نے ان کی اس مشقت کا صلہ کتنا جلدی ان کو عطا کر دیا۔ایک زمانہ تھا جب کسی کو عید کارڈ بذریعہ پوسٹ مین موصول ہوتا تھا تو گھر والوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔کیا بچے‘بوڑھے‘عورتیں سب کارڈکو چھو کر دیکھتے تھے۔یہ ایک سادہ سا عید کارڈ ہوتا تھا جس پر مسجد کے خوبصورت مینار ہوا کرتے تھے اور اُس کی اوٹ سے عید کا چاند مسکرارہا ہوتا تھا یا کوئی حسینہ گلاب کا پھول اپنے پھول جیسے گالوں کولگا کر عید مبارک کہہ رہی ہوتی تھی۔بڑے مزے مزے کے کارڈ ہوا کرتے تھے اور یکم رمضان سے ہی عید کارڈز کے سٹالز سج جایا کرتے تھے۔شاپنگ کرنے سے زیادہ عید کارڈ خرید کر خوشی ہوتی تھی مگر اب تو سب کچھ موبائل میں سمٹ گیا ہے۔کارڈ تو رہا ایک طرف کارڈ پر عید کیک بھی بھجوا دیا جاتا ہے۔البتہ سائنس ٹیکنالوجی نے اتنی مہربانی کی جو کارڈ20روپے میں مل جاتا تھا وہ 10پیسے کے خرچ پر موبائل کے ذریعے آپ کے کسی پیارے تک پہنچ جاتا ہے۔اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عید کارڈ خرید نے مارکیٹ میں جائے اور پھر اسے پہنچاتا پھرے۔عید الفطر رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال کو پوری دنیا کے مسلمان مناتے ہیں تاہم کچھ ایسی دلچسپ رسومات ہیں جو مخصوص علاقوں تک محدود رہتی ہیں‘ ہمارے ہاں یہ بڑی خوبصورت رسم ہے کہ عید سے پہلے رمضان کے آخری عشرے میں والدین اپنی شادی شدہ بیٹیوں کے گھر جاتے ہیں اور ان کے لئے مختلف اشیاء ضرورت خرید کر انہیں تحفہ دیتے ہیں۔اس کیلئے عید دینے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔جس لڑکی کے والدین زندہ نہ ہوں تو اس کے بھائیوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ فریضہ سر انجام دیں۔عید کے قریب لڑکی کو بھی انتظار رہتا ہے اور اس کی نگاہیں گھر کے دروازے پر ٹکی ہوتی ہیں کہ کب اس کے میکے سے کوئی آئے۔یہ رسم بھی محض لین دین کا نام نہیں بلکہ اس کا مقصد آپس میں محبت کے جذبات کو تقویت دینا اور اس کی آڑ میں اپنے غریب بہن بھائیوں کی امداد کرنا بھی مقصود ہوتا ہے۔ اور یوں یہ خوبصورت رسم اپنے اندر ایک خوبصورت مقصد کو بھی سموئے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عید جیسے تہواروں کی رنگینیوں میں اضافہ کرنے کیلئے حکومت ایک قدم آگے بڑھائے اور مہنگائی کو قابو میں کرکے کم از اکم ان خاص دنوں کو تو عوام کو کھل کر منانے کا موقع فراہم کرے۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عید بچوں کی ہوتی ہے،اور یہ اس اعتبار سے سچ بھی ہے کہ عید سے منسلک سرگرمیوں سے جو خوشی اور طمانیت بچوں کو ملتی ہے،وہ عام آدمی محسوس نہیں کر سکتا۔بچوں کوعید سے ملنے والی خوشی میں اہم کردار بڑوں کی طرف سے ملنے والی عیدی کا بھی ہوتا ہے۔ نوٹوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی جیبوں کو بھر لینا ان کے لیے بہت طمانیت بخش اور خوشی کا باعث ہوتا ہے۔عیدی کی روایت اگرچہ آج بھی پہلے کی طرح قائم ہے۔پہلے چھوٹی کرنسی کے نوٹ عام تھے،جنہیں بچے حاصل کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔لیکن اب ان کی قدر اس قدر گھٹ چکی ہے کہ بچے بھی انہیں حاصل کرکے خوشی محسوس نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس سے وہ اپنی پسند کی چیزیں نہیں خرید سکیں گے،اس لیے وہ چھوٹی کرنسی کے نوٹوں کے مقابلے میں بڑی کرنسی کے نوٹوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔