شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی برسی21اپریل کو عقیدت واحترام سے منائی جاتی ہے۔گومصور پاکستان کو اس دُنیا سے رخصت ہوئے 85برس بیت گئے ہیں، لیکن آج بھی اُن کا کلام بہ حیثیت قوم ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اُن کی آفاقی فکر اور نظریات ہر موڑ پر ہماری بھرپور رہنمائی کرتے ہیں۔علامہ اقبال9نومبر 1877ء بمطابق 3ذوالقعدہ 1294ھ کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔اقبالؒ نے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں جو کلیدی کردار ادا کیا ہے،اُسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا،جس کو شرمندۂ تعبیر قائد اعظم نے کیا۔ اقبالؒ کے فلسفے اور نظریات کا ہی ثمر تھا کہ ہمیں ایک آزاد وطن نصیب ہوا۔اُنہوں نے اُمت مسلمہ کے لئے بے تحاشا خدمات انجام دیں۔بلاشبہ اُن کی شاعری لازوال ہے۔وہ بہ حیثیت شاعر عالمی شہرت رکھتے ہیں،آج بھی دُنیا بھر میں اُن کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو عقیدتوں اور محبتوں کے پھول اُن پر نچھاور کرتے ہیں۔ہماری قوم کا وتیرہ بن گیا ہے کہ کسی بھی خاص دن پر وہ اُس حوالے سے بڑے جوش وخروش کا مظاہرہ کرتی ہے،پھر پورے سال اُس ضمن میں خاموشی رہتی ہے۔ اسی طرح شاعرمشرق کی خدمات کے اعتراف میں سال میں محض دو دن منانا اور پھر اُنہیں فراموش کر دینے کی روش اختیار کرنا مناسب طرز عمل نہیں۔
اقبالؒ دراصل ایسے لافانی فلسفے،فکر اور نظریات کا نام ہے۔ہمیں اس عظیم شاعر کے افکار کا پر چار محض برسی اور سالگرہ کے مواقع پر ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہر لمحہ اُنہیں اپنے پیش نظر رکھنا اور اُن کو پروان چڑھانا چاہئے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
علامہ اقبال نے یہ شعر تاریخ ساز شخصیت کے لئے لکھا تھا اور بلا شک وشبہ علامہ اقبال پاک وہند کی ایک ایسی تاریخ ساز اور عہد ساز شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا ”نظریہ“متعارف کیا بلکہ اپنی شاعری میں جدید نظریات،سائنس اور عالمی فکر کی اس امکانی قوت کو بیان کیا جس کے محور پر انسانیت وافاقیت زمانہ اول سے گردش کرتی چلی آرہی ہے جس کا سفرہمیشہ سے آگے اور مزید آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔کلام اقبال کا بیشتر حصہ ایسا ہے جس میں براہ راست انسانوں سے خطاب ہے یا انسانوں کی ترجمانی ہے۔انسان دوستی،احترام آدمیت اور عظمت انسانی کی تائیدوتفسیر کلام اقبالؒ کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ کلام اقبال میں خاصی مقدار میں ایسے اشعار ہیں جن کا موضوع انسان اور عالم انسانیت ہے۔وہ ایک بین الاقوامی دور کے دانشور اور مفکر تھے جنہوں نے شعوری طور پر آفاقیت کو اپنا مطمح نظر بنایا۔علامہ اقبال اسلامی قومیت کے علمبردار تھے ان کی اسلامی اور ملی شاعری آفاقیت کے منافی نہیں۔رواں صدی ماضی کی صدیوں سے زیادہ حساس ہے کہ جہاں ایک طرف تو دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے تو وہیں مادیت کی دوڑ میں روحانیت کو کچلا چا چکا ہے۔ایسے میں علامہ اقبال کے افکار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ جنہیں پھیلا کر امن وآشتی کی فضا ء قائم کی جاسکتی ہے۔اقبال نے مسلمانوں کو الگ پہچان کے ساتھ سر اٹھانے کی تحریک دی۔انہوں نے یہ بھی باور کروایاکہ یہ قوم غلام ہو ہی نہیں سکتی۔اس لئے تمام مسلمان یکجا ہو کر اپنی پہچان کے لئے ظالم کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں تو آدھے سے زیادہ مسائل تو ایسے ہی حل ہو جائیں گے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے اُردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا”داریکنسٹرکشن آف ریلیشن تھاٹ ان اسلام“کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب اور چند مشہور کتب بھی تحریر کی جن کے نام یہ ہیں۔”بانگِ درا (اُردو)“”بالِ جبریل (اُردو)“”ضربِ کلیم (اُردو)“”ارمغانِ حجاز (اُردو)“”تجوید فکربت اسلام (اُردو)“’’اسرار ورموز (فارسی)“ ”پیام مشرق (فارسی)“ ’’زبورِ عجم (فارسی)“”جاوید نامہ (فارسی)“”پس چاہ بیار کرد (فارسی)“”دیوان محمد اقبال (عربی والیم 1تا 10)“۔اقبال کسی ایک دور کا شاعر نہیں ہے علامہ اقبالؒ مسلمان سے جدت کردار کا طالب ہے اور اس لیے واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے،جو انہوں نے 1930ء میں الہٰ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ علامہ اقبال کی شاعری کا اہم پیغام خودی اور خود داری ہے جس پر عمل پیرا ہو کر مسلمانوں کو درپیش زیادہ تر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔