اس وقت سی پیک کے ذریعے چین نے وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت دنیا کے ایک بڑے خطے کوایک لڑی میں پرودیا ہے تو دوسری طرف مختلف عالمی تنازعات میں مثبت کردار ادا کرکے عالمی سیاست کے میدان میں ایک بڑا کھلاڑی ہو نے کا ثبوت دیا ہے۔گزشتہ سال چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا تین روزہ سرکاری دورہ کیاجسے عرب میڈیا میں نمایاں کوریج ملی تھی۔ دوسری طرف سعودی عرب کے کراؤن پرنس محمد بن سلمان سعودی عرب کو اقتصادی طاقت بنانے کیلئے کو شاں ہیں۔ ولی عہد کے ویژن 2030کے تحت سعودی عرب اپنے تمام تنازعات سمیٹ کر ساری توجہ اقتصادی ترقی پر مرکوز کر رہا ہے۔ اس ویژن کے حامل رہنما کیلئے دنیا کے باہم متحارب ممالک سے تعلقات استوار کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔سعودی عرب وژن 2030 کے ذریعے اپنی معیشت میں تنوع پیدا کر رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ تیل پر انحصار کم کیا جائے۔ سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ترکیہ اور سعودی عرب کے تعلقات کو محمد بن سلمان نے ایک نئی جہت دی ہے اورترکی میں پانچ بلین ڈالر کا ڈیپازٹ رکھاہے۔ اس اقدام کے جواب میں ترکیہ نے بھیعرب دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر کئے۔ 14فروری 2023 کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا ایک اہم دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران کئی اقتصادی اورسیاسی فیصلے کئے گئے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب اور ایران تنارعہ کا خاتمہ ایک اہم عالمی پیش رفت ہے۔پرنس محمد بن سلمان نے ویژن 2030 کے تحت ایران کے ساتھ مذکرات کا آغاز کیا اور 2021 میں عمان اور عراق کے تعاون سے سعودی عرب اور ایران کے مابین مذکرات کے پانچ دور ہوئے۔بعد میں چین نے دونوں ممالک کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ ہوگیا ہے اس معاہدے کوامن کی فتح کا نام دیا ہے۔ یہ معاہدہ چین کی اہم سفارتی فتح ہے اس معاہدے کی کامیابی پر چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ نیک نیتی اور قابل اعتماد ثالث کے طور پر چین نے میزبان کے طور پر اپنے فرائض پورے کیے ہیں۔بیجنگ دنیا کے مسائل سے نمٹنے کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا اور ایک بڑی قوم کے طور پر اپنی ذمے داری کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔مشرق وسطی کے دو بڑے روایتی حریف سعودی عرب اور ایران نے دوطرفہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کرکے، علاقائی منظر نامے میں ایک نیا موڑ دیا ہے۔یہ کارنامہ یقینی طور پر چینی صدر شی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ شی جن پنگ نے چار سال قبل کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس سے خطاب میں مستقبل کی پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے دنیا کو پیغام دیا تھا کہ چین اب ترقی اور طاقت کے اس مقام پر آچکا ہے کہ عالمی سٹیج پر اپنا کردار ادا کرے۔ گزشتہ سال دسمبر میں شی جن پنگ نے دورہ سعودی عرب کے دوران مشرق وسطی کے رہنماؤں کو ساتھ اکٹھا کیا اور انہوں نے واضح پیغام دیا ان کا سعودی عرب کا دورہ عرب دنیا کے ساتھ چین کے تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہے۔عرب دنیا ترقی پذیر ممالک کی صفوں کا ایک اہم رکن ہے۔ اور پھر کچھ عرصے بعد ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا دورہ کیا جس نے عرب میڈیا کی خاص توجہ حاصل کی۔امریکہ کو شکایت ہے کہ سعودی عرب اپنے تیل کی پیداوار میں کمی کر کے روس اور چین کے ساتھ محاذ آ رائی میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی پوزیشن کو نقصان پہنچارہا ہے اور اسکے ساتھ ان دونوں ممالک خصوصاًچین کے ساتھ تعلقات کومضبوط بنا کر اسے اس خطے میں قدم جمانے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔سعودی عرب اس وقت سوا کروڑ بیرل یومیہ تیل کے ساتھ دنیا میں خام تیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس میں سے 73لاکھ بیرل یومیہ سے زیادہ تیل بر آمد کرتا ہے۔ خود امریکہ سعودی عرب سے تقریباً پانچ لاکھ بیرل یومیہ کے حساب سے خام تیل درآمد کرتاہے۔