وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر دی، پیٹرول کی قیمت میں 12روپے فی لٹر، ہائی سپیڈ ڈیزل 30روپے، مٹی کا تیل 12روپے اور لائٹ ڈیزل آئل 12روپے فی لٹر سستا کر دیا گیا ہے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قیمتوں میں کمی کر اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 16سے 31مئی تک پیٹرول کی نئی قیمت 282 روپے سے کم کر کے 270روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 288روپے سے کم کر کے 258 روپے، مٹی کا تیل 176روپے 7پیسے سے کم کر کے 164روپے 7پیسے اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 164روپے 68پیسے فی لٹر سے کم کر کے 152روپے 68پیسے فی لٹر کر دی گئی ہے، نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے ٹرانسپورٹرز اور دیگر متعلقہ اداروں سے اپیل کی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو کرایوں میں کمی کر کے بھی دیا جائے۔خدا خدا کر کے حکومت کو خیال آہی گیا، اس نے عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں میں آنے والی کمی کو عوام تک منتقل کر دیا ہے۔ ڈیزل کی قیمتوں میں قابل ذکر کمی کی گئی ہے، جس سے ٹرانسپوٹیشن کے اخراجات کم ہوں گے، نہ صرف یہ کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے کم ہوں گے بلکہ سبزیوں، پھلوں اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی کی جانی چاہئے۔ وزیر خزانہ کی اپیل اہم ہے لیکن انہیں نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ معاملات صرف اپیلوں کی بنیاد پر طے نہیں ہوتے حکومت کواپنا اختیار استعمال کرنا پڑے گا۔ لازم ہے کہ حکومت بڑا قدم اٹھائے ٹرانسپورٹ کے کرائے اور مارکیٹ کی قیمتیں خود ریگولیٹ کرے تا کہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اس کمی کا عوام کو فائدہ منتقل کیا جا سکے۔ اس معاملے کو جب تک حکومتی سطح پر سختی سے ہینڈل نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک وہ عوام کو ریلیف منتقل نہیں کریں گے جبکہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود بھی تاحال عوام کا بوجھ کم نہیں کیا جاسکا ہے۔ ڈیزل اور پیٹرول کے نرخ میں کمی کرنے کے باوجود بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایہ،اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں اور ساز و سامان کے نرخوں میں کمی لانے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس پر خاموشی اختیار کر لی گئی ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملا ہے اس حوالے سے سخت کاروائی کی بجائے وفاقی حکومت نے تاجروں اور ٹرانسپورٹرز سے درخواست کی ہے جس پر کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی اضافہ کے بعد بھی ٹرانسپورٹرز کی جانب سے کرایہ میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور اشیا خورونوش کی قیمتیں بھی راتوں رات بڑھا دی جاتی ہیں لیکن وفاقی حکومت کے حالیہ فیصلے جس میں پیٹرول 12روپے اور ڈیزل30 روپے لیٹرستا کیا گیا ہے لیکن اس کی روشنی میں رسد و رسائل اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں کم نہ ہو سکی ہیں۔ اس وقت ملک کی مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ انتظامی مشینری کا عدم تعاون اور اپنی ذمہ داریوں سے انحراف ہے جبکہ مہنگائی میں کمی کی خاطر اگر مجسٹریسی نظام دوبارہ لانے کی ضرورت ہے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ حکومت بار بار مجسٹریسی نظام لانے کا کہہ رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک حکومت اس میں بری طرح نا کامیاب ہے، وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ ازخود نوٹس لیں اور اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کریں کہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے حالانکہ دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے مختلف پالیسیاں نافذ ہیں۔ ملائشیا جیسے ممالک تیل درآمد کرتے ہیں۔ پھر تیل پر سبسڈی دے کر عوام کو کم نرخوں پر فراہم کرتے ہیں۔ اس کا اثر وہاں کی معیشت پر بہت اچھا رہا ہے۔ ملائشیا میں سیاحت کا شعبہ ہر سال کروڑوں مہمانوں کی خاطر داری کرتا ہے۔ یہ سیاح مقامی ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ سبسڈائز تیل کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ جہازوں ریلوں اور کاروں کے کرائے خاصے کم ہیں۔ کرائے کم ہونے پر سیاح اور مقامی افراد کم خرچ پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے کو جا سکتے ہیں۔ یہ کسی ملک کے معاشی ماڈل پر منحصرہے کہ وہاں تیل کی قیمتوں کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل استعمال کرنے والے ممالک امریکہ روس اور یورپ بند پڑے ہیں۔ چین میں جزوی کام جاری ہے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کا خیال ہے کہ معاشی بحران کے باعث کاروباری سرگرمیاں کم ہونے سے حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ٹیکس اہداف حاصل کر سکے۔ ان حالات میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی گنجائش پوری طرح عوام کو منتقل نہیں کی جا رہی۔ یقینا ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ اس قدر بھاری نہ ہوتا تو حکومت کے لئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مزید کم کرنا ممکن ہو سکتا تھا۔ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے بعد ان سرکاری اداروں کو فوری طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے جو پبلک اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی اور اس کمی پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں۔پاکستان جن معاشی مشکلات کا شکار ہے وہاں حکومت سے بہت زیادہ مالی مراعات کا تقاضا ممکن نہیں تاہم جو فیصلے سوچ بچار کے بعد کئے جا رہے ہیں ان پر عملدرآمد میں کوتاہی دکھائی دے تو قیمتوں میں کمی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے،حقیقت میں دیکھا جائے تو پٹرول کی قیمت میں کمی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق روپے کی قدر گھٹ رہی ہے جبکہ ڈالراونچی اڑان بھر رہا ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور غریب کے لئے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔حکومت اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچناچاہتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ٹرانسپورٹرز سے کرائے کم کر وائے تاکہ عملی طور پر عام آدمی کے روزمرہ اخراجات میں کمی واقع ہو۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے بجلی اور تیل کے نرخوں میں بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے کمی کرنی چاہئے کیونکہ پاکستانی عوام پہلے سے مہنگائی،بے روزگاری اور دوسرے مسائل کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں اور ان کو مزید تنگ اور پریشان نہیں کرنا چاہئے۔