بہادری کی داستان

25مئی 1998ء کو پی آئی اے فوکر ستائیس گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کراچی روانہ ہونے کو تیار کھڑا تھا روانگی سے قبل جہاز میں معمول کے مطابق اعلان کیا گیا خواتین و حضرات اپنے حفاظتی بند باندھ لیجئے،ہم بہت جلد اپنے سفر کو روانہ ہونے والے ہیں،اس ایئر کرافٹ میں تنتیس مسافر سوار تھے اور عملہ کے پانچ افرادشام ساڑھے پانچ بجے جہاز اپنی منزل کراچی کیلئے روانہ ہوا اور اسے ساڑھے چھ بجے کراچی پہنچنا تھا پرواز کے بیس منٹ کے بعد ایک شخص اٹھا اور کاک پٹ کی جانب بڑھا،ایئر ہوسٹس نے سامنے آتے ہوئے گزارش کی سر آپ تشریف رکھیں کاک پٹ میں آپ کو جانے کی اجازت نہیں وہ شخص انہیں دھکا دے کر ہٹاتے ہوئے پائلٹ تک پہنچ گیا اور پسٹل نکال کرپائلٹ عزیز خان کی گردن پر رکھتے ہوئے خبردار کیا کے وہ اسکے حکم کا پابند ہے اس لمحے اس دہشت گرد کے دو ساتھی بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور پسٹل مسافروں پر تان لئے،ان میں سے ایک نے کچھ پیکٹ جسم کے ساتھ باندھ رکھے تھے جو کہ پھٹنے والا خطرناک مٹیریل تھا۔خوف اور ہراس کی فضا جہاز میں سرایت کر گئی، ہائی جیکر کیپٹن عزیز کو حکم دیا کے یہ 
جہاز کراچی نہیں انڈیادہلی ایئر پورٹ جائے گا۔کیپٹن نے جہاز میں مسافروں کو آگاہ کیا کے معزز خواتین وحضرات جہاز ہائی جیک ہو چکا ہے اور اب یہ انڈیا جائے گا۔ اب انہوں نے  ہائی جیکروں کے لئے بہانہ بناتے ہوئے کہا کے ہمارے پاس کافی ایندھن نہیں ہے جو ہمیں دہلی لے جا سکے ہمیں قریبی ایئر پورٹ سے ایندھن اور خوراک لینا پڑے گی، دوسری طرف ہائی جیکر ہر صورت جہاز نیو دہلی لے جانا چاہتے تھے ان کے پاس نقشہ بھی تھا اور وہ نقشہ دیکھ کر آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے وہ بار بار نقشہ دیکھتے ہوئے بھوج ایئر پورٹ کو نقشے میں دیکھ کر ذکر کر رہے تھے،ان کی باتیں سن کر کیپٹن نے کہا کے انڈیا کا بھوج ایئر پورٹ قریب پڑتا ہے وہاں تک جہاز جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے انڈین ہیڈ کوارٹر سے اجازت لینا ہوگی‘ اب اگلا مرحلہ تھا بھوج ایئر پورٹ رابطہ کر کے اترنے کی اجازت لی جائے کیپٹن عزیز جانتے تھے قریبی ایئرپورٹ سندھ کا حیدر آبادایئرپورٹ ہی تھا،انہوں نے وہاں رابطہ کرتے ہوئے یہ پوچھا کیا یہ بھوج ایئرپورٹ ہے کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟کچھ تگ ودو کے بعد انھیں بتایا گیا کے پردان منتری سے بات کرنے کے بعد انکی ڈیمانڈ منظور کرتے ہوئے بھوج ائیر پورٹ اترنے کی اجازت دے دی گئی ہے‘ جہاز اترتے ہی کمانڈوز نے گھپ اندھیرے میں گاڑیاں جہاز کے آگے کھڑی کر دیں کے وہ ٹیک آف نہ کر سکے،پھر وہاں کے عملہ کے روپ میں تین اہلکار بات چیت کے بہانے جہاز میں بغیر ہتھیار کے جائزہ لینے کے لیے داخل ہوئے،وہ پولیس فورس کے تربیت یافتہ خطرناک کمانڈوز تھے جنھوں نے رضاکارانہ طور پر جہاز کے اندر بغیر ہتھیاروں کے داخل ہونے کے لیے خود کو پیش کیا انھوں نے انڈین فورس کی وردی میں ٹھیٹھ ہندی لہجے میں دہشت گردوں سے بات چیت کرنا شروع کی گویا یہ انڈیا تھا اور یہ بھوج ائیر پورٹ ہے دہشت گرد ایندھن اور خوراک چاہتے تھے لیکن بات چیت طویل ہوتی جارہی تھی،ایک اہلکار نے ہائی جیکروں کو قائل کیا کہ آپ پہلے ہی انڈیا میں ہو اس لیے عورتوں بچوں کو یہیں اتار کر آپ دہلی چلے جاؤ،رات گیارہ بجے جہاز سے آخر عورتیں اور بچے اترنا شروع ہوئے ان مسافروں کے جہاز سے اترنے کی دیر تھی کے جہاز کے چاروں طرف اندھیرے میں خاموشی سے رینگتے ہوئے کمانڈوز ایک ہی ہلے میں تیزی کے ساتھ پہلے اور دوسرے دروازے سے تکبیر کے نعرے کے ساتھ دہشت گردوں پر حملہ آور ہوئے اوردو منٹ کے اندر تینوں دہشت گردوں کو قابو کر کے باندھ دیا گیا،‘کیپٹن عزیز بڑے ہی سکون سے بیٹھے ساری صورتحال خاموشی سے دیکھ رہے تھے پھر وہ بڑے آرام سے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں کے قریب سے مسکراتے ہوئے جہاز سے اتر گئے اس سارے ڈرامہ کے ہیرو کیپٹن عزیزکواعزازی میڈل دئیے گئے کیپٹن عزیز کی ذیانت عقلمندی اور ہوشمندی نے پاکستان کو کسی عظیم نقصان سے بچا لیا، وہ بعد میں ٹرینی پائلٹس کو لیکچر بھی دیتے رہے۔