کہتے ہیں کہ قدیم درسگاہ ایک بار پھر بیسک پے کی ابتر حالت سے دو چار ہونے والی ہے کسی نے سوچا ہے کہ وجوہات کیا ہیں؟ اعلیٰ تعلیم کی ابتری کی ابتداءاس وقت ہوئی جب تعلیمی بجٹ کو نصف کر دیا گیا ۔ آج سے پانچ سال قبل اعلیٰ تعلیم کا سالانہ بجٹ تقریباً80 ارب روپے تھا جبکہ ترقیاتی بجٹ اس کے علاوہ تھا حکومت وقت نے غیر ترقیاتی غیر ضروری اور پروٹوکولی اخراجات پر کٹ لگانے کی بجائے تعلیم کے پرکاٹ کر80 ارب کا بجٹ42 ارب کر دیا بعدازاں54 ارب اور پھر64 ارب کر دیا گیا جو کہ تاحال اسی جگہ کھڑا ہے ۔ دوسری طرف مہنگائی یا بہ الفاظ دیگر جامعات کے اخراجات میں100 سے لیکر500 فیصد تک اضافہ سامنے آیا اور مہنگائی کی یہ رفتار ٹلنے اور ٹھہرنے کا نام ہی نہیں لے رہی ‘ نتیجتاً اعلیٰ تعلیمی ادارے اپاہج ہو کر رہ گئے ‘ کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کی درجہ بندی جدید تحقیق میں پیش رفت کی بنیاد پر کی جاتی ہے ریسرچ یعنی وہ کام جو جامعات کا ہدف اور نصب العین تھا اب نہ ہونے کے برابر رہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ آئینی طور پر تو اعلیٰ تعلیم یا جامعات کو صوبوں کے حوالے کیا گیا مگر بجٹ وفاقی حکومت نے اپنے پاس رکھا یعنی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو بھی برقرار رکھا گیا حالانگہ ہر صوبے میں
پراونشل اعلیٰ تعلیمی کمیشن قائم ہے اور ایچ ای سی کی طرح ڈاکخانے کا کام وہ بھی بہتر طورپر انجام دے سکتا ہے ۔ تیسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لئے تنخواہوں مراعات اور پنشن میں جس اضافے کا اعلان کرتی چلی آئی ہے یونیورسٹیوں کو اس کی ادائیگی کےلئے گرانٹ نہیں دیتی جس کے سبب ایک عرصہ سے یونیورسٹیاں بے چینی ہیجان خیزی ‘ مایوسی بلکہ تالہ بندی اور دھرنوں کے عالم سے دو چار ہیں ابھی حال ہی میں قدیم درسگاہ کے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین نے پورے ڈیڑھ مہینے تک یونیورسٹی کو بند رکھا اور روزہ داری میں بھی دھرنا دیتے رہے بالآخر حکومتی دباﺅ‘ رابطوں بلکہ ضمانت پر ایک معاہدے کے تحت ہڑتال ختم کی گئی ہے لیکن مسئلہ اب بھی جوں کا توں ہے ۔ راقم نے بالمشافہ بھی اور ان سطور میں بھی کئی بار نشاندہی کی تھی کہ ملازمین کے جن مسائل یا مطالبات کا تعلق پیسوں سے ہو وہ پورے یا حل نہیں ہوں گے کیونکہ حکومت رابطہ تو کر سکتی ہے دباﺅ ڈال سکتی ہے جبکہ یقین دہانیاں بھی کر سکتی ہے مگر پیسے نہیں دے سکتی ۔ وہی ہوا اور اب ملازمین کی بے چینی نہ صرف برقرار ہے بلکہ رفتہ رفتہ بڑھتی جا رہی ہے ۔ابتری کے اس عالم میں جامعہ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جون سے ایک بار پھر بیسک پے کی حالت سے دو چار ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ پوری تنخواہ اور الاﺅنسز کی ادائیگی کے لئے پیسے نہیں ہوں گے ۔ یہی بدحالی کیمپس اور صوبے کی دوسری پرانی یونیورسٹیوں پر بھی طاری ہوئی ہے ہر یونیورسٹی کا فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی خسارے کا بجٹ تیار کر کے پیش کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب حکومت تعلیمی بجٹ میں اضافے کی بجائے مسلسل اس تلقین کو دھرا رہی ہے کہ یونیورسٹیاں اپنے اخراجات کم کرکے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے اپنے ذرائع آمدن پیدا کریں جہاں تک آمدن میں اضافے یا ذرائع آمدن پیدا کرنے کا سوال ہے تو وہ بھی حکومتی پالیسیوں ہی کی وجہ سے محدود بلکہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں مثال کے طور پر دو سالہ بیچلر اور ماسٹر پرائیویٹ پروگرام اور
فاصلاتی نظام تعلیم کو ختم کرکے یونیورسٹیوں کے سالانہ آمدنی میں کروڑوں روپے کی کمی ہو گئی ۔واقع جامعات کی ابتر حالت میں یہ امر قدرے خوش آئند لگتا ہے کہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ تنظیموں کو اس بات کا ادراک اور احساس ہو گیا ہے کہ جب تک تعلیمی بجٹ میں معقول اضافہ نہیں ہوتا تب تک اعلیٰ تعلیم و تحقیق اور جامعات کی کارکردگی اور انتظام و انصرام اپاہج رہیں گے ۔ سرکاری جامعات کی فیڈریشن کے صوبائی چیئرمین کی کال پر گزشتہ ہفتے یونیورسٹی کیمپس کی چاروں جامعات کے اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف نے محدود تعداد میں سڑک پر آ کر تعلیمی بجٹ کو 500 بلین تک بڑھانے کا جو مطالبہ کیا ہے دیکھتے ہیں کہ اس پر حکومتی ردعمل کیا ہے ؟ادھر یونیورسٹی ملازمین کا اتحاد یا جیک ایک بار پھر تالہ بندی کے لئے پر تول رہا ہے جبکہ ساتھ ہی کسی سیانے نے ان کے پہلو میں یہ بات بھی بٹھا دی ہے کہ یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ خزانہ واقعی خالی ہے یا یہ ہر نئی حکومت کی طرح عوام سے جان چھڑانے کا ایک روایتی حربہ ہے ؟ ملازمین اتحاد کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے سربراہ نے تو یہ دعویٰ تسلسل کیساتھ دہرایا ہے کہ ان کی کوششوں سے جامعہ مالی بحران سے نکل آئی ہے تو پھر یکدم بیسک پے پر کیسی چلی گئی؟