حکومت نے ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے پیٹرول 8 روپے لیٹر، ہائی سپیڈ ڈیزل 5 روپے لیٹر ستا کر دیا ہے تا ہم مٹی کے تیل کی قیمتیں برقرار رکھی گئی ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ دنوں میں دوسری بار کمی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کمی کا عام عوام کو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوا کیونکہ تیل کی قیمتوں میں جب بھی معمولی یا زیادہ اضافہ کیا جاتا ہے تو ٹرانسپورٹرز اس سے فوراً فائدہ اٹھا کر نہ صرف اشیائے صرف کی نقل و حمل کیلئے استعمال ہونے والی ٹرانسپورٹ یعنی کنٹینرز، ٹرک وغیرہ کے کرائے بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے اشیا ءمہنگی ہو جاتی ہیں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی راتوں رات بڑھا دئیے جاتے ہیں تاہم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا محولہ دونوں شعبوں کے ٹرانسپورٹ کرایوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ صرف بار برداری ٹرانسپورٹ بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے کرائے جوں کے توں رکھے جاتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دوبار نمایاں کمی کے بعد اس کا فائدہ عوام تک منتقل کرنے کا بھی اہتمام کیا جائے ، متعلقہ سرکاری حکام نہ صرف بار برداری ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا تعین کریں بلکہ عوامی سفر کیلئے استعمال ہونے والی ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کے مختلف مختلف روٹس پر کرائے مقرر کر کے ان پر سختی سے عمل در آمد کوممکن بنا ئیں تا کہ عوام کو کچھ تو ریلیف ملے۔ خاص طور پر اشیائے صرف اور دیگر چیزوں کی نقل و حمل پر اخراجات میں کمی سے متعلقہ تاجروں اور دکانداروں کی جانب سے بھی اخراجات میں کمی کا فائدہ عوام کو دینے میں مزید تارخیر کی گنجائش موجود نہیں۔ماضی میں یہ بھی اعلانات ہوئے ہیں کہ سمندر میں تیل کے ذخائر دریافت کرنے اور گیس کے بند کنوو¿ں کو فعال کر کے گیس کی تلاش کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں تو اس منصوبے پر بھی عمل کو مزید تاخیر کا شکار نہ کیا جائے کیونکہ گیس کے ذخائر کے ساتھ تیل بھی ان کنوو¿ں سے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ دیگر ممالک سے بھی روس کے ساتھ سستے تیل کے
معاہدے کی طرح بات آگے بڑھائی جائے اور مزیدسستا تیل درآمد کر کے عوام کو آسانیاں فراہم کی جائیں۔اب تو وفاقی حکومت نے بھی روس کے ساتھ مال کے بدلے مال بارٹر ٹریڈ کا اعلان کر دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جب تک خود ساختہ مہنگائی برپا کرنےوالوں کو حکومتی سطح پر سختی سے ہینڈل نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک وہ عوام کو ریلیف منتقل نہیں کریں گے جبکہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود بھی تاحال عوام کا بوجھ کم نہیں کیا جاسکا ہے۔ ڈیزل اور پیٹرول کے نرخ میں کمی کرنے کے باوجود بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایہ ،اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں اور ساز و سامان کے نرخوں میں کمی لانے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملا ہے۔ ۔ اس وقت ملک کی مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ مقامی سطح پر منڈی اور مارکیٹ پر موثر کنٹرول کی کمی ہے ۔اس مسئلے کے حل کیلئے اگر مجسٹریسی نظام دوبارہ لانے کی ضرورت ہے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ حکومت بار بار مجسٹریسی نظام لانے کا کہہ رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک عملی طور پر اس ضمن میں کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ وزیر اعظم خود نوٹس لے کر اور اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کریں کہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے حالانکہ دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے مختلف پالیسیاں نافذ ہیں۔ ملائشیا جیسے ممالک تیل درآمد کرتے ہیں۔ پھر تیل پر سبسڈی دے کر عوام کو کم نرخوں پر فراہم کرتے ہیں۔ اس کا اثر وہاں کی معیشت پر بہت اچھا رہا ہے۔ ان حالات میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی گنجائش
پوری طرح عوام کو منتقل نہیں کی جا رہی۔ یقینا ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ اس قدر بھاری نہ ہوتا تو حکومت کے لئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مزید کم کرنا ممکن ہو سکتا تھا۔ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے بعد ان سرکاری اداروں کو فوری طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے جو پبلک اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی اور اس کمی پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں پاکستان جن معاشی مشکلات کا شکار ہے وہاں حکومت سے بہت زیادہ مالی مراعات کا تقاضا ممکن نہیں تاہم جو فیصلے سوچ بچار کے بعد کئے جا رہے ہیں ان پر عملدرآمد میں کوتاہی دکھائی دے تو قیمتوں میں کمی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے ۔حقیقت میں دیکھا جائے تو پٹرول کی قیمت میں کمی ایک اہم قدم ہے تاہم اس کے اثرات کو نیچے عوام تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے ۔حکومت اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچناچاہتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ٹرانسپورٹرز سے کرائے کم کر وائے تاکہ عملی طور پر عام آدمی کے روزمرہ اخراجات میں کمی واقع ہو کیونکہ پاکستانی عوام پہلے سے مہنگائی ،بے روزگاری اور دوسرے مسائل کی وجہ سے انتہائی مشکل میںہیں ۔اس وقت عالمی سطح پر معاشی مشکلات میں اضافے کے حوالے سے پیش گوئی کی جا رہی ہے جس کے ساتھ لازمی طورپر پاکستان پر بھی پڑیں گے اس صورتحال کے لئے پہلے سے تیاری ضروری ہے تاکہ صورتحال کو مزید خراب ہونے میں بچایا جا سکے ہمیں اس سلسلے میں چین سے سیکھنا ہوگا جہاں پر تعمیر و ترقی کے لئے کئی دہائیوں پر مبنی پروگرام بنائے گئے ہیں اور ان پر تندہی کے ساتھ عملدرآمد بھی کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں وقتی طور پر مسائل کو دبانے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ مسائل میں اضافے کی صورت میں سامنے آتا ہے اس سلسلے میں ہمیں فی الفور اپنے طرز عمل پر غور کرنا ہوگا اور مسائل کو دبانے کی بجائے مستقل طور پر اس سے چھٹکارا پانے کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل پیرا ہونا ہوگا۔