وفاقی حکومت نے یکم جون کو ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر (SRO)جاری کیا، جس کے تحت 4ممالک پاکستان، افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ B2B بارٹر ٹریڈ کے تحت سامان کی درآمد اور برآمد کی اجازت دی گئی ہے۔ بارٹر سسٹم پر پاکستان نے کئی برسوں سے کام شروع کر رکھا ہے۔2021ءمیں افغانستان میں طالبان کے ا قتدارمیں آنے کے بعد پاکستان کے ساتھ اس کی تجارت میں اضافہ دیکھا گیا تھا تاہم رواں برس دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم میں کمی آئی جبکہ ڈالرز کی کمی دونوں ملکوں میں دیکھی گئی اور وفاقی حکومت نے پاکستان کی بزنس کمیونٹی سے بارٹر سسٹم کے بارے میں مذاکرات شروع کئے ۔ان مذاکرات میں دیگر پاکستان بھر کے پرائم چیمبرز کے علاوہ پاکستان افغانستان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری (PAJCCI)نے ایک کلیدی کردار ادا کیا چونکہ یہ چیمبرز ایک انٹر نیشنل چیمبر ہے اور اس کے پاکستان افغانستان کے دونوں جانب سے ایگزیکٹیو ممبران کی تعداد برابر ہے اور اس بارٹر ٹریڈ میکانزم کو بنانے میں دونوں ملکوں کے کاروباری افراد نے حصہ لیا جس میں پاکستان کی طرف سے چیئرمین محمد زبیر موتی والا ، جنید مکڈا، قاضی زاہد، جاوید بلوانی، خالد شہزاد، انجینئر منظور الٰہی،شاہد حسین، عمران کاکڑ، نیاز محمد، محمد ادریس اور راقم ضیاءالحق سرحدی کے علاوہ افغانستان کی طرف سے کو چیئرمین خان جان الکوزئی،ڈاکٹر مخلص، یونس مہمند، احمد شاہ، اجمل صافی،نجیب اللہ صافی، سلطان صافی ودیگر شامل تھے۔ دنیا کے وہ ممالک جنہیں قرضوں کی ادائیگی میں دقت کا سامنا ہو یا جن کے پاس ڈالر میں زرمبادلہ کے ذخائر نا کافی ہو جائیں وہ بارٹرسسٹم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیںجبکہ اس سے پہلے دسمبر2021میں پاک ایران تجارت کو بارٹر سسٹم پر منتقل کرنے کا معاہدہ ہوا تھا تاکہ مال کے بدلے مال کے تازہ میکانزم کی تفصیلات کا جائزہ لیا جائے جس سے روس ، ایران اور افغانستان سے پاکستان جو اشیا ءحاصل کر سکے گا ان میں تیل ، گیس ، خشک میوہ جات ، کھاد، مشینری وغیرہ شامل ہے۔ دوسری طرف پاکستان سے دودھ ، کریم ، انڈے سیریل ایکسپورٹ کئے جا سکیں گے۔ وزارت تجارت حکام کے مطابق
گوشت، مچھلی کی مصنوعات ،پھل، سبزیاں، چاول، بیکری آئٹمز، نمک ،آئل،پرفیوم اور کاسمیٹکس،کیمیکلز، پلاسٹک، ربڑ ، چمڑا، لکڑی کی مصنوعات، پیپر، فٹ ویئر، لوہا، اسٹیل، تانبا، ایلومینئم،کٹلری بھی ایکسپورٹ کی جا سکیں گی‘پاکستان الیکٹرک فین ، ہوم ایمپلائنسز، موٹر سائیکلز،سرجیکل آلات اور کھیلوں کا سامان بھی ایکسپورٹ کیا جائے گا جبکہ روس سے بارٹر سسٹم کے تحت گندم دالیں، پیٹرولیم مصنوعات ،کھاد اور ٹیکسٹائل مشینری بھی درآمد کی جائے گی اوراسی طرح ہمسایہ ملکوں سے آئل سیڈز، منرل ، کاٹن بھی امپورٹ کی جاسکے گی۔اس وقت پاکستان کی درآمدات کا حجم 40 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے جبکہ برآمدات20 ارب ڈالر سے بڑھ نہیں پارہی ہیں۔ پچھلے 15 سال سے برآمدی ہدف 30 اور 35 ارب ڈالر رکھا جاتارہا لیکن سال کے آخر پر نا کا می کھڑی ہوتی ہے۔ بارٹر سسٹم کے کئی فائدے ہیں، یہ نظام سادہ ہے اور بارٹر ایک ایسی معیشت ہے جو صدیوں سے مال کے بدلے مال اور خدمات کے تبادلے کے طور پر رائج ہے جبکہ پاکستان اور اس کے مغربی پڑوس کے درمیان، خاص طور پر وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارتی صلاحیت اربوں ڈالر کی ہے۔ ایران کے مقابلے میں پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے مختصر ترین زمینی راستہ فراہم کرتا ہے اور ترکی ایک بندرگاہ سے جڑ سکتا ہے۔ تاہم پاکستان اور وسط ایشیائی ملکوں کے در میان دو طرفہ تجارت پچھلے کئی برسوں سے1 ارب ڈالر رہی ہے جو صلاحیت سے بہت کم ہے۔ پاکستان نے سی پیک اور دیگر معاہدوں کی صورت میں دنیا بھر میں اپنے تجارتی اور ٹرانزٹ روٹس کو وسعت دی ہے‘ آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان ،تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان میں موجود
زرمبادلہ کی رکاوٹوں کے پیش نظر ان ممالک کے تاجر اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پاکستان سے خریدے گئے سامان کی مالیت متبادل نقدی میں طے کر سکیں۔ لیکن وہ مال کے بدلے ملکی سپلائی کی شکل میں وہی ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان میں ایران، افغانستان اور روس کےساتھ بارٹر ٹریڈ کے تحت سالانہ 1.153بلین ڈالر کی اشیا ءبرآمد کرنے اور 2.032بلین ڈالر کی اشیا ءدرآمد کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ بارٹر ٹریڈ میں کوئی مالیاتی لین دین شامل نہیں ہے کیونکہ یہ صرف دو یا دو سے زیادہ فریقوں کے درمیان سامان یا خدمات کی تجارت ہے ‘ پاکستان کو مستقبل قریب میں ایران اور روس پر پابندیوں میں کوئی نرمی نظر نہیں آتی۔بارٹر ابتدائی طور پر ایران کے معاملے میں 45سے 50فیصد، افغانستان کے معاملے میں 20فیصد اور روس کے معاملے میں تقریباً 15-20فیصد لےگا اور باقی تجارت جوں کی توں جاری رہے گی تاہم بارٹر تجارت کو اگلے چند سالوں میں بتدریج بڑھایا جائے گا اور ہم مزید ممالک اور مصنوعات شامل کریں گے‘ افغانستان کو 716.98 ملین امریکی ڈالر کی بارٹر برآمدات کا امکان ہے، جو ہماری کل برآمدات کا 2.3 فیصد ہے، اور اسی طرح افغانستان سے 801.26ملین ڈالر کی درآمدات کا امکان ہے‘ جو کل درآمدات کا 1.8 فیصد بنتا ہے‘ ایران کےلئے 311.7 ملین ڈالر کی برآمدات کا امکان ہے جو کل برآمدات کا 0.9 فیصد ہے اور ایران سے درآمدات 737.7 ملین ڈالر کی ہوں گی جو کل درآمدات کا 0.98 فیصد ہے‘ روس کےلئے بارٹر برآمدات کےلئے 124.37ملین ڈالر کا امکان تیار کیا گیا ہے، جو کل برآمدات کا 0.4 فیصد حصہ ہے‘ روس سے درآمدات 457.58ملین ڈالر ہوں گی جو کل درآمدات کے 0.58فیصد حصے کے برابر ہے اور اس طرح ایران، افغانستان اور روس کو بارٹر برآمدات کی کل صلاحیت 1.535بلین ڈالر میں تبدیل ہو جاتی ہے ‘وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ درست سمت میں قدم قرار دیا جا سکتا ہے البتہ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کوبار ٹر ٹریڈ میں کس قسم کی طلب ورسد کا سامنا پڑے گا اور جس مال کو بارٹر کرنا ہے ، اس کی قیمت کا تعین کس میکنزم کے تحت کیا جائے گا۔