زندگی کی دوڑ

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
زندگی ایک خواب‘سرائے اور میلہ ہی تو ہے‘میلہ گھڑی پل کا ہوتا ہے جس طرح خواب کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے میلہ بھی اجڑ سکتا ہے‘کہتے ہیں میلہ دیکھنا ہو تو میلے میں گم نہیں ہونا چاہئے‘میلے میں گم ہو کر میلہ نہیں دیکھا جاسکتا۔میلہ‘میلے سے ذرا ہٹ کر‘کسی گوشے سے‘ دیکھا جاسکتا ہے‘یوں لگتا ہے جیسے ہم سب میلے کی بھول بھلیوں میں گم ہو چکے ہیں اور زندگی کی اس رونق اور ہلے گلے کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں‘آنکھ اسوقت کھلتی ہے جب موت کا نقارہ بج جاتا ہے‘ابھی کل کی بات لگتی ہے ہمارے دوست شہوار حیدر انجم نئے نئے پروڈیوسر ہو کر ریڈیو پاکستان لاہور کے سنٹرل پروڈکشن یونٹ میں آئے تھے‘مجھے بھی جمعہ جمعہ آٹھ روز ہوئے تھے لاہور آئے‘شہوار نے میری ایک غزل بڑی محبت اور محنت سے حمیرا چنا کی آواز میں ریکارڈ کی تھی‘ جس کا مطلع کچھ یوں تھا۔
  لبو ں پہ لائے ہوئے اور نظر کا ساتھ ہوئے
 زمانہ بیت گیا ہے کسی سے بات ہوئے
شہوار حیدر انجم موسیقی کے بہت سے گن رکھتے تھے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے وہ اِن دنوں سی پی یو کے ہیڈ تھے‘اگلے روزہم اسلام آباد میں کتابوں کے میلے میں تھے کہ خبر ملی ’شہوار حیدر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔‘ دل کو ایک دھچکا سا لگا اور اس دور کا سارا منظرنامہ آنکھوں میں آگیا جب ہمارا زیادہ وقت ریڈیو پر گزرتا تھا‘اب تک یقین نہیں آرہاتھا کہ نوجوان شہوار حیدر انجم خالق حقیقی سے جا ملے ہیں‘اسلام آباد میں ہمارے ساتھ رضی الدین رضی اور ناصر بشیر بھی اس دکھ پر نہایت دل گرفتہ رہے‘بلکہ جس نے بھی سنا افسوس ہی کیا کہ ابھی اس کے جانے کے دن نہیں تھے‘اللہ غریق رحمت کرے کمال کا دوست تھا جسکی کمی شاید ہی پوری ہو سکے کوئی دوسرا بھلا کسی کی جگہ کیسے لے سکتا ہے۔ادھرنیشنل بک فاؤنڈیشن کا میلہ بھرا ہوا‘کیسے رنگ رنگ کے پروگرام تھے‘کتابوں کی رونمائیاں ہوئیں‘کتاب خوانی کی محافل میں کتابوں سے اقتباس پڑھ کر سنائے گئے۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور ان کی ٹیم خوش اور مستعد رہے‘علامہ اقبال اوپن یورنیورسٹی کے ہوسٹل میں ٹھہرنے والے جن اہل قلم سے ہمیں ملاقات کا موقع ملا ان میں محمود شام ریاض مجید‘منیر بادینی‘نذیر تبسم‘مرزا حامد بیگ‘خواجہ رضی حیدر‘تابش الوری‘خالد مسعود‘رضی الدین رضی‘شاکر حسین شاکر‘ناصر بشیر‘عقیل عباس جعفری‘راشد نور‘ مسعود اشعر‘اصغر ندیم سید‘مبین مرزا‘اسلم سحر‘ہارون الرشید تبسم‘ناصر علی سید‘وسعت اللہ خان‘حنیف عابد‘سعد اللہ شاہ‘فرح محمود شامل ہیں‘یہاں این بی ایف کے سلیم اختر اور اشرف صاحب نے تمام مہمانوں کا خیال رکھا۔صبح نو بجے گاڑیاں ناشتے کے بعد پاک چائنہ سنٹر لے جاتی ہیں‘جہاں کتابوں کی دنیاسجی ہوئی ہے۔مختلف پبلشرز کے بک سٹال ہیں جہاں ہر عمر کے لوگ کتب خریدتے نظر آتے ہیں‘دن بھر سیشن بھی جاری رہتے ہیں۔درمیان میں لنچ بریک بھی ہوتی ہے‘ہم نے ابھی دو مسلسل سیشن میں شرکت کی۔ڈرامہ زندگی اور کتاب کے سیشن میں امجد اسلام امجد کی صدارت میں ڈرامے پر بات ہورہی تھی اور اصغر ندیم سید اپنے تجربات شیئر کررہے تھے کہ ڈرامہ لکھتے وقت وہ کن کن مراحل سے گزرے اور ان دنوں کتنی محنت کی جاتی تھی مگر موجودہ دور میں فنکاروں کو عین وقت پر مکالمے تھما دیئے جاتے ہیں‘کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کہانی اور کردار کیا ہے اس سیشن کی نظامت محبوب ظفر نے کی‘ اس سیشن میں عرفان صدیقی اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید بھی موجود رہے جبکہ ایک اور سیشن کی نظامت عائشہ مسعود کررہی تھیں‘کشور ناہید بھی کچھ دیر کیلئے تشریف لائیں اور اپنی تازہ غزل پیش کی جس پر سعد اللہ شاہ نے قافیہ پر اعتراض اٹھادیا۔کشور ناہیدنے کشادہ دلی سے انکی تنقید کو برداشت کیا‘بات موسیقی سے مشہور ہونیوالی غزلوں کی ہورہی تھی‘حسن عباس رضا‘جاوید احمد‘راحت سرحدی‘ناصر بشیر‘بینا گوئندی‘ شائستہ نزہت‘ناصر علی سید‘رحمان حفیظ‘ رخشندہ نوید نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔