ایک تقریب کی روداد

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
لاہور ادب و ثقافت کے حوالے سے دبستان کا درجہ رکھتا ہے ایک زمانے میں ےہاں ایک سے بڑھ کے ایک ادبی شخصیت موجود تھی مگراب تو لاہور خالی خالی لگتا ہے۔بڑی ادبی شخصیات فیض احمد فیض،احمد ندیم قاسمی،ظہیر کاشمیری ،سیف الدین سیف،قتیل شفائی،منیر نیازی ،احمد راہی انتظار حسین ،اے حمید اور شہزاد احمد سے لے کر خالد احمد ،اسلم کولسری تک رخصت ہو چکے ہیںےوں تو سبھی اہل قلم اپنی اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتے تھے مگر ان سب میں احمد ندیم قاسمی کو ایک ’گرو ‘کی سی حیثیت حاصل تھی احمد ندیم قاسمی نے فنون جیسے ادبی جریدہ کے ذرےعے شعرو ادب کے فروغ کےلئے گرانقدر خدمات سر انجام دیںاس ادبی جریدے کے ذرےعے نئی نسل کے ادبیوں اور شاعروں کی کثیر تعداداحمد ندیم قاسمی کے سائے میں پروان چڑھی انہوں نے ایک پوری نسل کی ادبی تربیت کی آسمان ادب پر دمکنے والے کئی ادبی ستارے انہی کے دم سے روشن ہوئے اِس وقت بھی جو نامور تخلیق کار نظر آتے ہیںکسی حد تک سبھی’فنون‘کے ذرےعے سامنے آئے۔احمد ندیم قاسمی نے ہر جگہ لاہورسے بطور خاص جن اہل قلم کی سر پرستی اور پروجیکشن میں اہم کرداراداکیا ان میں امجداسلام امجد‘ عطا الحق قاسمی ،خالد احمد ،نجیب احمد ،اےوب خاور،محمد سلیم طاہر،منصور احمد سے لےکر اعجاز رضوی تک شامل تھے۔ احمد ندیم قاسمی کی سالگرہ آتی تو کسی نہ کسی بڑے ہوٹل میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا جاتا تھااور ملک بھر سے محبان ندیم اس جشن سالگرہ میں شریک ہوا کرتے تھے ۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ احمد ندیم قاسمی کی زندگی میں ہی انکے تربیت ےافتہ شعرا نے اپنے اپنے پلیٹ فارم قائم کرلئے۔عطا الحق قاسمی نے معاصر جیسا ادبی جریدہ شائع کیا اور اپنے دوستوں کو ساتھ لےکر چلے خالد احمد نے بیاض شائع کر کے نوجوان اہل قلم کو پلیٹ فارم مہیا کیا۔امجد اسلام امجد نے بھی خوب شہر ت حاصل کی۔اسطرح کے کئی پلیٹ فارمز کا بننا کوئی بری بات نہ تھی ےہ سب لوگ اپنے اپنے دائروں میں رہ کر بھی احمد ندیم قاسمی سے اپنی وفاداری کا دم بھرتے رہے البتہ جیسے ہی احمد ندیم قاسمی نے آنکھیں بند کیں اور اس جہانِ فانی کو الوداع کہا تو انہیں کسی حدتک سبھی نے فراموش کر دیا۔اب اگر وہ کہیں زندہ ہیں تو محض اپنی تخلیقی توانائی کی بدولت موجود ہیںان کی افسانہ نگاری اور شاعری آج بھی قارئین کے دلوں میں دھڑکتی ہے۔ رواں سال احمد ندیم قاسمی کی صدی کے حوالے سے مناےا جا رہا ہے۔کچھ روز قبل احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے بیاض گروپ نے مشاعرہ کراےا اور اپنے شعرا کو اکٹھا کیا۔بعد ازاں ندیم صدی کا آخری پروگرام منعقد ہواجس میں شہر کی ممتاز ادبی صحافتی شخصیات نے اظہار خیال کیا اور احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے امجد اسلام امجد کی بنائی ہوئی دستاویزی فلم دکھائی گئی۔الحمرا ہال۲ میں منعقدہ اس پروگرام کی صدارت منو بھائی نے کی۔ےہاں سبھی مقررین نے اپنے اپنے حوالے سے گفتگو کی ۔ ان میں سے ایک صاحب کی گفتگو پر تو سامعین دم بخود رہ گئے فرمایا ’ میں تو احمد ندیم قاسمی سے واقف نہیںالبتہ امجد اسلام امجد اور عطا الحق قاسمی کی زبانی ان کا تذکرہ بہت سنا ہے اور آج مقررین کی باتیں سن کر محسوس ہوا کہ احمد ندیم قاسمی واقعتا شریف آدمی تھے مجیب الرحمن شامی تو تقریر کے دھنی ہیں،ہر تقریب میں اپنی شگفتہ بیانی سے سامعین کے دل مو ہ لیتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مجلس ِ ترقی ادب میں احمد ندیم قاسمی انتہائی قلیل ماہانہ مشاہرہ پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ہم نے درخواست کر کے ان کی تنخواہ میں اضافہ کرایا۔عطا الحق قاسمی نے ہلکی پھلکی گفتگو کر کے حاضری لگوائی اور تقریب سے سے جلد رخصت ہوگئے۔ڈاکٹر خورشید رضوی سے توقع تھی کہ وہ احمد ندیم قاسمی کے فن پر سنجیدہ گفتگو کریں گے اور حاضرین کو بتائیں گے کہ مرحوم کس پائے کے تخلیق کار تھے مگر انہو ں نے محض ان کی دو نظمیں پیش کیں۔کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے امجد اسلام امجد کے صاحبزادے کی تیار کردہ احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے دستاویزی فلم کی فوٹو گرافی اچھی تھی چند ادبی شخصیات کے تاثرات اس میں ضرور شامل تھے مگر ایک بھر پورادیب اور شاعر کی زندگی پر جیسی فلم ہونی چاہئے تھی وہ نظر نہ آئی ۔فلم میں قاسمی صاحب کی جائے ولادت ،آبائی گاﺅں اور پھر اُن کے رہن سہن اور لاہور میں روز مرہ کی مصروفیات کی عکس بندی بھی شامل کی جاتی تو اس میں جان پڑجاتی مگرگلزار ،اشفاق احمد،شفیق الرحمن ،خورشید رضوی اور دیگر ادبی شخصیات کے تاثرات ہی جمع کئے جاسکے۔بہر حال ایک بڑے ادارے نے اسے سپانسر کر کے ادب دوستی کا ثبو ت دیامگر اس سے کہیں زیادہ اچھی دستاویزی فلمیں ہمارے پی ٹی وی کے پروڈیوسر سلمان سعید بنا چکے ہیںان کی منیر نیازی کے حوالے سے دستاویزی فلم نہایت معیاری اور جاندار ہے۔صدارتی خطبے میں منو بھائی اس بات پر شکوہ کنا ں رہے کہ قاسمی صاحب نے انہیں منو بھائی کا نام دے کر ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔وہ عمر بھر ان کے عطا کردہ نام کی لاج نبھاتے رہے اور ڈھنگ سے زندگی نہ گزار سکے جسکا انہیں بڑا قلق ہے۔کاش وہ بھی ادب سے کچھ کمائی کرلیتے اور ان کے بچے نہ رلتے ۔تقریب اس حوالے سے اہم ضرور تھی کہ وفات کے بعد انہیں کم از کم ےاد تو کیا گیا لیکن قاسمی صاحب کے فن کا اعتراف کھل کر نہ کیا جاسکا۔ اور قاسمی صاحب نے جس طرح ایک کثیر الجہت زندگی گزاری ہے اس کا احاطہ کرنا یقینا مشکل ہے انہوں نے ادب کے کسی ایک صنف میں نہیں بلکہ کئی اصناف میں وہ کام کیا ہے جس سے گلستان ادب سرسبز ہے اور ان کی یاد دلاتا رہتا ہے۔