دال کتاب اور جہاز

بڑی معروف کہانی ہے کہ میزبان نے مہمان سے پوچھا کہ آج کیا تاریخ ہے مہمان جیسے ادھار کھائے بیٹھا تھا‘ کہنے لگا تاریخ کا تو معلوم نہیں آج دال کی تین تاریخ ہے‘ بالکل ایسے ہی کچھ معاملات پی آئی اے کی فلائٹ میں میرے ساتھ پیش آئے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تمام مسافروں کو اس صورتحال سے گزرنا ہی پڑا جب پیٹرسن ائرپورٹ ٹورنٹو سے جہاز چلا تو باوجود میرے پاس فسٹ کلاس لاﺅنج کا پاس ہونے کے دیر ہو جانے کی وجہ سے مجھے جہاز کی طرف دوڑنے کی حد تک پہنچنا پڑا‘ شاید میں اور ایک دو اور مسافر آخری ہی تھے‘ جہاز کے دروازے بند ہوگئے‘ فسٹ کلاس میں سفر کا اپنا ایک منفرد چارم ہوتا ہے گو کہ پی آئی اے کے چند جہاز تو واقعی بزنس کلاس کی کیٹگری کو پہنچتے ہیں لیکن کچھ جہازوں میں نام ہی نام کا راج ہوتا ہے‘ سنٹر میں تین سیٹوں پر ایک کونے میں میں بیٹھ گئی‘ دروازہ بند ہونے کا مطلب ہے کوئی اور مسافر اب نہیں آرہا میں نے دوسری سیٹ پر اپنا پرس‘ شال اور کتاب رکھ دی‘ دوسرے کونے میں ایک خاتون ہاتھوں میں کچھ بھاری کم کتب اٹھائے ہوئے بیٹھ گئی لیکن اگلے ہی لمحے اس کو معلوم پڑا کہ وہ اپنی عینک تو گھر بھول آئی ہے‘ بھلا کمزور نظر والے عینک کے بغیر کتاب کا تصور کیسے کر سکتے ہیں اور یہ بات میں اچھی طرح جانتی ہوں‘ میرے پاس عینک تو موجود ہے لیکن صرف ایک ہے اس لئے اس کو عنایت کر دینے کا مطلب خود محروم ہو جانا‘ لہٰذا میں خاموش رہی‘ خاتون نے سیٹ کا بٹن دبا کر اس کو پلنگ کی طرح لٹانا چاہا جیسا کہ بزنس کلاس کی سیٹیں ہوتی ہیں تو پتہ چلا بٹن تو کب کاخراب پڑا ہے ‘ائر ہوسٹس نے معصوم سی صورت بنا کر بٹن کی دیرینہ خرابی کا اعتراف کیا‘ خاتون نے غصے میں اپنا تمام مال و اسباب اٹھالیا اور کسی اچھے بٹن والی کرسی کی طرف چل پڑی‘ مجھے تو ایک ٹکٹ میں تین سیٹیں مل گئیں پی آئی اے کے جہاز اچھے ہوں نہ ہوں پی آئی اے کے پائلٹوں کی اڑان بھرنے اور لینڈنگ کرنے کی صلاحیت کمال ہوتی ہے‘ جہاز پوری طرح اپنی اڑان بھر چکا تھا‘ دعا مانگی اے اللہ بس تو میرے بچوں اور ان کے اہل و عیال کو حفاظت سے رکھنا‘ میرے تمام گناہ معاف کر دینا اور نہ جانے کیا کیا دعائیں لبوں پر ایک کے بعد ایک کر کے آتی گئیں‘ ایک آدمی ائرہوسٹس کے قریب سے گزرا تو پوچھا اخبار مل جائے گا‘ بڑا اشتیاق تھا کہ ٹورنٹو اسٹار تو ضرور جہاز میں موجود ہوگا لیکن ٹکا سا جواب سن کر حیرت ہوئی‘ کیا اچھے زمانے ہوا کرتے تھے جب کہ جہازوں میں ہر قسم کا میگزین اور اخبارہوتا تھا اور اتنے وافر کہ ہر مسافر کے ہاتھ تک رسائی تھی‘ چلو تسبیح پڑھ لیتے ہیں ‘دل نے سوچا اور عمل بھی کرلیا‘ سامنے سکرین پر لگی ہوئی جہاز کی نقل و حرکت میری پسندیدہ ترین تفریح میں شمار ہوتی ہے ‘اب جہاز یہاں سے گزر رہا ہے اور اب جہاز650 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہا ہے اور اک مکمل تفصیل اپنے اندر وسیع پیمانے پر معلومات رکھتی ہے جیسے جغرافیہ میرے ساتھ ساتھ ہے سمندر‘ جنگل‘ دریا‘ شہر تمام ایک ایک کر کے گزر رہے ہیں‘ ائرہوسٹس کے کمرے میں ہل چل اور کھانے کی خوشبوﺅں سے پتہ چلا کہ کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ کھانا آیا ہی چاہتا ہے‘ ایک نہایت ہنس مکھ ائرہوسٹس اپنی ٹرالی پر سفید چاول‘ دو تین قسم کی دالیں‘ سلاد اور ڈبل روٹی لئے حاضر ہوگیا‘ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ائرہوسٹس خود سرو کر رہا تھا بس آپ نے اشارے سے بتانا ہے کہ کون سی دال چاہئے کون سے چاول چاہئیں‘ ابلے ہوئے یا مٹر کے ساتھ ابلے ہوئے‘ سچ پوچھیں تو ایسے کھانے کی توقع نہ تھی لیکن شوگر ڈاﺅن ہو جانے کے ڈر سے تھوڑا سا چکھ لیا‘ ائرہوسٹس نے حیران ہو کر پوچھا اتنا تھوڑا‘ میں نے کہا ہاں کچھ اور لے لونگی‘ وہ آگے بڑھ گیا اور کچھ دیر بعد ہی جہاز کی بتیاں بجھا دی گئیں اور زبردستی کی نیند اور رات مسلط کردی گئی کینیڈا میں دن کے دو بجے تھے‘ مسافروں نے بھی نیند کو اپنے اوپر طاری کرنے کی بھرپور کوشش شروع کر دی‘ اپنی تو عادت ہے کہ جہاز 20گھنٹے بھی چلتا رہے تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہوتی ہے‘ اپنی سیٹ کی بتی آن کی اور ایک ادھوری کہانی کو آگے بڑھانے کیلئے بیگ سے کاغذ اور قلم نکال لیا اب پی آئی اے کے سٹاف کے اچھنبے کی باری تھی قریب آ آ کر میرے صفحوں پر نظریں دوڑاتے رہے سفر سے پہلے سفر کی پریشانیاں اپنے اندر بے پناہ تھکاوٹیں لیتے پھرتی ہیں‘ میں بھی اس وقت ایسی ہی کیفیت میں تھی پانچ صفحات سے زیادہ لکھنے کی طاقت نہ تھی مجبوراً بستہ سمیٹا اور منہ پر شال ڈال کر تسبیح پڑھتی رہی‘ البتہ ایک گرم چائے کی پیالی ائرہوسٹس نے جو بنائی وہ میرے لئے کسی نعمتق سے کم نہیں تھی میرے لکھنے کی وجہ سے ائر ہوسٹس کچھ زیادہ ہی مجھ سے متاثر ہوگئیں اپنا نام بتایا اپنی ذاتی باتیں بتائیں‘ اپنا فون نمبر تبدیل کیا‘ بڑی خوشی کوئی تو
 لکھنے لکھانے والوں کو پسند کرتا ہے‘ کئی بار وہ میرے لئے اپنے ہاتھ سے بہترین چائے بنا کر لائی آخر کیوں نہ کرتی وہ ہمارے ایک پٹھان بھائی کی بیگم تھی‘ خود تو پنجاب سے تھی اس لئے یہ سن کر وہ اور بھی مہربان ہوگئی کہ میرا تعلق اس کے سسرالی شہر سے تھا تقریباً آدھا سفر طے ہو چکا تھا میں نے سکرین دیکھی جہاز نیوناﺅنڈلینڈ سے بحراوقیانوس پر آگیا تھا شاید سوئے ہوئے مسافروں کو علم نہ تھا کہ ہم دنیا کے گہرے ترین سمندر کے اوپر سے گزر رہے ہیں اور اگلے آٹھ گھنٹے گزرتے رہیں گے کچھ دیر کے لئے بتیاں آن کی گئیں اور کھانے کا اک دور اور چلا حیرانگی تو اس وقت ہوئی جب وہی ابلے ہوئے چاول اور تین قسم کی دالیں دیکھیں ائرہوسٹس کو مہمان اور میزبان والا لطیفہ سنایا اس نے کافی انجوائے کیا اور ساتھ ہی تاویلیں پیش کرنے لگا کہ ائرپورٹ والوں نے سوائے ان دال چاولوں کے کچھ نہیں دیا میں نے اس بار انگور لے لیا اور باقی کھانے سے معذرت کرلی‘ لیکن میں نے دیکھا کہ لوگ پلیٹیں بھر بھر کے کھا رہے تھے‘ مجھے کھانے پینے سے اتنی دلچسپی کبھی نہیں رہتی سوائے اس کے کہ زندہ رہنے کیلئے کھانا چاہئے اب کی بار بتیاں بجھ گئیں تو میں نے اپنی کتاب نکالی‘ یہ کتاب میں نے کینیڈا کی ایک لائبریری کے سیل سیکشن سے صرف جہاز میں پڑھنے کیلئے خریدی تھی صرف ایک ڈالر کی‘ اب کتاب کھولوں تو پتہ لگے کہ کتاب کا معیارکیا ہے؟ دیکھنے میں بہت اچھی لگ رہی ہے‘ کتاب کا نام تھا ” جغرافیکل بلس“ اور یقین کریں کتاب تھی کہ خوشبوﺅں سے مالامال کر گئی موضوع بھی اس کا خوشی ہی تھا اور ایک لمبا چیپٹر میں نے پڑھا جو نیڈر لینڈ کے بارے میں تھا اس کا ایک ایک لفظ‘ ایک ایک لائن جیسے میری روح کو سیراب کرتی گئی‘ دل خوش ہوگیا‘ کتنے ہی مسافر میرے قریب آئے میری انگریزی کی کتاب کو حیرت سے دیکھا اور آگے بڑھ گئے میں نے دیکھا پی آئی اے کا اسٹاف کچھ زیادہ مجھ پر مہربان ہوگیا شاید وہ سچ مچ بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھ بیٹھتے ہیں‘ بہرحال یہ ایک خوبصورت فلائٹ تھی گو کہ 15گھنٹے کی فلائٹ میری جیسی عمر کیلئے بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن براہ راست اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ انسان کافی آرام دہ محسوس کرتا ہے‘ اسلام آباد ائرپورٹ ایک آرام دہ لینڈنگ کے ساتھ آچکا ہے‘ اتفاقاً پائلٹوں کے گروپ پر نظر پڑی تو بے اختیار ان کی خوبصورت اڑان اور لینڈنگ کی تعریف کرڈالی‘ وہ بہت خوش ہوئے ‘دو سال بعد میں اپنے وطن واپس آئی ہوں‘ باہر نکلوں گی تو وطن کی شکل نظر آئے گی۔
دال کتاب اور جہاز


بڑی معروف کہانی ہے کہ میزبان نے مہمان سے پوچھا کہ آج کیا تاریخ ہے مہمان جیسے ادھار کھائے بیٹھا تھا‘ کہنے لگا تاریخ کا تو معلوم نہیں آج دال کی تین تاریخ ہے‘ بالکل ایسے ہی کچھ معاملات پی آئی اے کی فلائٹ میں میرے ساتھ پیش آئے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تمام مسافروں کو اس صورتحال سے گزرنا ہی پڑا جب پیٹرسن ائرپورٹ ٹورنٹو سے جہاز چلا تو باوجود میرے پاس فسٹ کلاس لاﺅنج کا پاس ہونے کے دیر ہو جانے کی وجہ سے مجھے جہاز کی طرف دوڑنے کی حد تک پہنچنا پڑا‘ شاید میں اور ایک دو اور مسافر آخری ہی تھے‘ جہاز کے دروازے بند ہوگئے‘ فسٹ کلاس میں سفر کا اپنا ایک منفرد چارم ہوتا ہے گو کہ پی آئی اے کے چند جہاز تو واقعی بزنس کلاس کی کیٹگری کو پہنچتے ہیں لیکن کچھ جہازوں میں نام ہی نام کا راج ہوتا ہے‘ سنٹر میں تین سیٹوں پر ایک کونے میں میں بیٹھ گئی‘ دروازہ بند ہونے کا مطلب ہے کوئی اور مسافر اب نہیں آرہا میں نے دوسری سیٹ پر اپنا پرس‘ شال اور کتاب رکھ دی‘ دوسرے کونے میں ایک خاتون ہاتھوں میں کچھ بھاری کم کتب اٹھائے ہوئے بیٹھ گئی لیکن اگلے ہی لمحے اس کو معلوم پڑا کہ وہ اپنی عینک تو گھر بھول آئی ہے‘ بھلا کمزور نظر والے عینک کے بغیر کتاب کا تصور کیسے کر سکتے ہیں اور یہ بات میں اچھی طرح جانتی ہوں‘ میرے پاس عینک تو موجود ہے لیکن صرف ایک ہے اس لئے اس کو عنایت کر دینے کا مطلب خود محروم ہو جانا‘ لہٰذا میں خاموش رہی‘ خاتون نے سیٹ کا بٹن دبا کر اس کو پلنگ کی طرح لٹانا چاہا جیسا کہ بزنس کلاس کی سیٹیں ہوتی ہیں تو پتہ چلا بٹن تو کب کاخراب پڑا ہے ‘ائر ہوسٹس نے معصوم سی صورت بنا کر بٹن کی دیرینہ خرابی کا اعتراف کیا‘ خاتون نے غصے میں اپنا تمام مال و اسباب اٹھالیا اور کسی اچھے بٹن والی کرسی کی طرف چل پڑی‘ مجھے تو ایک ٹکٹ میں تین سیٹیں مل گئیں پی آئی اے کے جہاز اچھے ہوں نہ ہوں پی آئی اے کے پائلٹوں کی اڑان بھرنے اور لینڈنگ کرنے کی صلاحیت کمال ہوتی ہے‘ جہاز پوری طرح اپنی اڑان بھر چکا تھا‘ دعا مانگی اے اللہ بس تو میرے بچوں اور ان کے اہل و عیال کو حفاظت سے رکھنا‘ میرے تمام گناہ معاف کر دینا اور نہ جانے کیا کیا دعائیں لبوں پر ایک کے بعد ایک کر کے آتی گئیں‘ ایک آدمی ائرہوسٹس کے قریب سے گزرا تو پوچھا اخبار مل جائے گا‘ بڑا اشتیاق تھا کہ ٹورنٹو اسٹار تو ضرور جہاز میں موجود ہوگا لیکن ٹکا سا جواب سن کر حیرت ہوئی‘ کیا اچھے زمانے ہوا کرتے تھے جب کہ جہازوں میں ہر قسم کا میگزین اور اخبارہوتا تھا اور اتنے وافر کہ ہر مسافر کے ہاتھ تک رسائی تھی‘ چلو تسبیح پڑھ لیتے ہیں ‘دل نے سوچا اور عمل بھی کرلیا‘ سامنے سکرین پر لگی ہوئی جہاز کی نقل و حرکت میری پسندیدہ ترین تفریح میں شمار ہوتی ہے ‘اب جہاز یہاں سے گزر رہا ہے اور اب جہاز650 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہا ہے اور اک مکمل تفصیل اپنے اندر وسیع پیمانے پر معلومات رکھتی ہے جیسے جغرافیہ میرے ساتھ ساتھ ہے سمندر‘ جنگل‘ دریا‘ شہر تمام ایک ایک کر کے گزر رہے ہیں‘ ائرہوسٹس کے کمرے میں ہل چل اور کھانے کی خوشبوﺅں سے پتہ چلا کہ کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ کھانا آیا ہی چاہتا ہے‘ ایک نہایت ہنس مکھ ائرہوسٹس اپنی ٹرالی پر سفید چاول‘ دو تین قسم کی دالیں‘ سلاد اور ڈبل روٹی لئے حاضر ہوگیا‘ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ائرہوسٹس خود سرو کر رہا تھا بس آپ نے اشارے سے بتانا ہے کہ کون سی دال چاہئے کون سے چاول چاہئیں‘ ابلے ہوئے یا مٹر کے ساتھ ابلے ہوئے‘ سچ پوچھیں تو ایسے کھانے کی توقع نہ تھی لیکن شوگر ڈاﺅن ہو جانے کے ڈر سے تھوڑا سا چکھ لیا‘ ائرہوسٹس نے حیران ہو کر پوچھا اتنا تھوڑا‘ میں نے کہا ہاں کچھ اور لے لونگی‘ وہ آگے بڑھ گیا اور کچھ دیر بعد ہی جہاز کی بتیاں بجھا دی گئیں اور زبردستی کی نیند اور رات مسلط کردی گئی کینیڈا میں دن کے دو بجے تھے‘ مسافروں نے بھی نیند کو اپنے اوپر طاری کرنے کی بھرپور کوشش شروع کر دی‘ اپنی تو عادت ہے کہ جہاز 20گھنٹے بھی چلتا رہے تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہوتی ہے‘ اپنی سیٹ کی بتی آن کی اور ایک ادھوری کہانی کو آگے بڑھانے کیلئے بیگ سے کاغذ اور قلم نکال لیا اب پی آئی اے کے سٹاف کے اچھنبے کی باری تھی قریب آ آ کر میرے صفحوں پر نظریں دوڑاتے رہے سفر سے پہلے سفر کی پریشانیاں اپنے اندر بے پناہ تھکاوٹیں لیتے پھرتی ہیں‘ میں بھی اس وقت ایسی ہی کیفیت میں تھی پانچ صفحات سے زیادہ لکھنے کی طاقت نہ تھی مجبوراً بستہ سمیٹا اور منہ پر شال ڈال کر تسبیح پڑھتی رہی‘ البتہ ایک گرم چائے کی پیالی ائرہوسٹس نے جو بنائی وہ میرے لئے کسی نعمتق سے کم نہیں تھی میرے لکھنے کی وجہ سے ائر ہوسٹس کچھ زیادہ ہی مجھ سے متاثر ہوگئیں اپنا نام بتایا اپنی ذاتی باتیں بتائیں‘ اپنا فون نمبر تبدیل کیا‘ بڑی خوشی کوئی تو
 لکھنے لکھانے والوں کو پسند کرتا ہے‘ کئی بار وہ میرے لئے اپنے ہاتھ سے بہترین چائے بنا کر لائی آخر کیوں نہ کرتی وہ ہمارے ایک پٹھان بھائی کی بیگم تھی‘ خود تو پنجاب سے تھی اس لئے یہ سن کر وہ اور بھی مہربان ہوگئی کہ میرا تعلق اس کے سسرالی شہر سے تھا تقریباً آدھا سفر طے ہو چکا تھا میں نے سکرین دیکھی جہاز نیوناﺅنڈلینڈ سے بحراوقیانوس پر آگیا تھا شاید سوئے ہوئے مسافروں کو علم نہ تھا کہ ہم دنیا کے گہرے ترین سمندر کے اوپر سے گزر رہے ہیں اور اگلے آٹھ گھنٹے گزرتے رہیں گے کچھ دیر کے لئے بتیاں آن کی گئیں اور کھانے کا اک دور اور چلا حیرانگی تو اس وقت ہوئی جب وہی ابلے ہوئے چاول اور تین قسم کی دالیں دیکھیں ائرہوسٹس کو مہمان اور میزبان والا لطیفہ سنایا اس نے کافی انجوائے کیا اور ساتھ ہی تاویلیں پیش کرنے لگا کہ ائرپورٹ والوں نے سوائے ان دال چاولوں کے کچھ نہیں دیا میں نے اس بار انگور لے لیا اور باقی کھانے سے معذرت کرلی‘ لیکن میں نے دیکھا کہ لوگ پلیٹیں بھر بھر کے کھا رہے تھے‘ مجھے کھانے پینے سے اتنی دلچسپی کبھی نہیں رہتی سوائے اس کے کہ زندہ رہنے کیلئے کھانا چاہئے اب کی بار بتیاں بجھ گئیں تو میں نے اپنی کتاب نکالی‘ یہ کتاب میں نے کینیڈا کی ایک لائبریری کے سیل سیکشن سے صرف جہاز میں پڑھنے کیلئے خریدی تھی صرف ایک ڈالر کی‘ اب کتاب کھولوں تو پتہ لگے کہ کتاب کا معیارکیا ہے؟ دیکھنے میں بہت اچھی لگ رہی ہے‘ کتاب کا نام تھا ” جغرافیکل بلس“ اور یقین کریں کتاب تھی کہ خوشبوﺅں سے مالامال کر گئی موضوع بھی اس کا خوشی ہی تھا اور ایک لمبا چیپٹر میں نے پڑھا جو نیڈر لینڈ کے بارے میں تھا اس کا ایک ایک لفظ‘ ایک ایک لائن جیسے میری روح کو سیراب کرتی گئی‘ دل خوش ہوگیا‘ کتنے ہی مسافر میرے قریب آئے میری انگریزی کی کتاب کو حیرت سے دیکھا اور آگے بڑھ گئے میں نے دیکھا پی آئی اے کا اسٹاف کچھ زیادہ مجھ پر مہربان ہوگیا شاید وہ سچ مچ بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھ بیٹھتے ہیں‘ بہرحال یہ ایک خوبصورت فلائٹ تھی گو کہ 15گھنٹے کی فلائٹ میری جیسی عمر کیلئے بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن براہ راست اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ انسان کافی آرام دہ محسوس کرتا ہے‘ اسلام آباد ائرپورٹ ایک آرام دہ لینڈنگ کے ساتھ آچکا ہے‘ اتفاقاً پائلٹوں کے گروپ پر نظر پڑی تو بے اختیار ان کی خوبصورت اڑان اور لینڈنگ کی تعریف کرڈالی‘ وہ بہت خوش ہوئے ‘دو سال بعد میں اپنے وطن واپس آئی ہوں‘ باہر نکلوں گی تو وطن کی شکل نظر آئے گی۔