طویل‘ خوبصورت اور صاف شفاف سڑکیں کینیڈا کی پہچان ہیں تمام چھوٹے بڑے راستے اپنے آخر میں ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں طویل اور چھوٹی سڑکوں کے نام اتنے پیارے اور انوکھے ہیں کہ کوئی گلی‘ کوئی سڑک اچھے نام سے محروم نہیں‘اٹھارہویں صدی میں کینیڈا آنے والے تمام لوگ یورپ سے تعلق رکھتے تھے اس لئے جو نام خاص طور پر انگلینڈ اور فرانس کی گلیوں محلوں کے ہیں کینیڈا میں بھی وہی ہیں کینیڈا کے لوگ ایسٹ ویسٹ ساؤتھ اور نارتھ کے نام کے ساتھ اپنے مطلوبہ ایڈریسزپر پہنچتے ہیں بڑی مین روڈ پر ٹریفک اشارے ہیں اور اندر گلیوں ا ور آبادیوں میں کسی قسم کا کوئی اشارہ نہیں ہے ہر گلی کے آخر میں سٹاپ کا بڑا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر ہر گاڑی پوری طرح بریک لگاتی ہے ادھر ادھر دیکھتی ہے اور پھر آگے بڑھتی ہے جو گاڑی پہلے سٹاپ پر رکتی ہے اس کا حق بھی پہلے چلنے کا ہوتا ہے پیدل چلنے والوں کا حق بہت زیادہ ہے مین روڈ پر ٹریفک اشاروں کے ساتھ پیدل چلنے والوں کیلئے وسیع فٹ پاتھ بنے ہوئے ہیں سڑک کراس کرنے کے لئے وسیع لین اور چلنے کا اشارہ ہے تمام پیدل افراد جمع ہو جاتے ہیں جب ان کا اشارہ کھلتا ہے تو گاڑیوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے‘ جب تک کہ آخری قدم بھی فٹ پاتھ کی دہلیز پر نہیں پہنچ جاتا‘پیدل چلنے والوں پر بھی بغیر اشارے کے سڑک کراس کرنے پر جرمانہ ہوتا ہے‘ بسوں کے انتظار کرنے کیلئے شیشے کی انتظارگاہیں‘ مین روڈز اور اندر کی چھوٹی گلیوں میں جگہ جگہ بنائی گئی ہیں موسم چونکہ ٹھنڈا ہوتا ہے برف باری اور طوفان میں لوگ اندر شیشے کے گھر میں چلے جاتے ہیں بسیں جگہ جگہ رکنے کا کوئی رواج نہیں ہے ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک ہی بس سفر کرتی ہے لوگ واک کرنے کے شوقین ہیں خصوصاً خواتین بہت چلتی ہیں‘ہر گھر کا مکین اپنے کتے کو لے کر دن رات میں ایک دفعہ ضرور ٹہلاتا ہے‘ہر کوئی صفائی کا خاص خیال رکھتا
ہے‘ سڑکیں‘پارک‘ فٹ پاتھ صاف ستھرے ہیں‘ میں نے کبھی خاکروبوں کو جھاڑو لگاتے ہوئے سڑکوں پر نہیں دیکھا‘ ہاں گورنمنٹ پارکس اور گرین ایریاز کو اپنے ورکرز سے صاف کرواتی ہے جو خود کار مشینوں سے صفائی کرتے ہیں‘ برف باری سے پہلے مین سڑکوں پر لگے ہوئے بیشتر قیمتی درختوں کو کپڑوں سے لپیٹ دیا جاتا ہے‘ ان کو برف براہ راست نہیں چھوتی برف باری کے موسم کے بعد ان کو کھول دیا جاتا ہے یہ کام سردیوں سے پہلے وسیع پیمانے پر ہوتا ہے اور گرمیوں سے پہلے دوبارہ ہوتا ہے کوئی مکین اپنے گھر کے باہر کوڑا کرکٹ پھینکنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا گورنمنٹ بڑے بڑے پلاسٹک کے ڈرم ہر گھر کو دے دیتی ہے کوڑا ہر گھر سے ایک ہفتے کے بعد گورنمنٹ اکٹھا کرواتی ہے مکین پورے ہفتے کا کوڑا ان ڈرمز میں جمع کرتے ہیں یہ ان کے گیراجوں میں پڑے ہوتے ہیں ہر علاقے کا ایک دن مقرر ہوتا ہے گھروں کے مالک مقررہ دن شروع ہونے سے پہلے ہی رات کو ڈرمز باہر فٹ پاتھوں پر رکھ دیتے ہیں ٹرک ڈرائیور اپنے خود کار نظام کے تحت کوڑے کو اٹھا کر ٹرک میں ڈالتا جاتا ہے کہیں کہیں مشین کے بجائے ایک ورکر ڈبے اٹھا کر ٹرک میں ڈالنے کا کام کرتا ہے یقینا یہ امیگرنٹ ہی ہوتا ہے یہاں ان کاموں کو برا نہیں سمجھا جاتا اگر کوئی شاپر میں کوڑا علیحدہ سے
رکھ دیتا ہے تو ٹرک والا اس کو نظر انداز کر دیتا ہے وہ وہیں پر پڑا رہتا ہے گورنمنٹ کے سخت اصول ہیں جن کو فالو کیا جاتا ہے میں جس گلی میں رہتی ہوں اس میں تقریباً 30/35 گھر ہیں گھروں کے طاق نمبر ایک قطار میں ہیں اور گھروں کے فرنٹ پر لگے ہوئے ہیں اسی طرح جفت نمبرز سامنے والی لائن ہوتی ہے ہر گلی میں اپنے وطن‘ انڈیا‘ افریقہ‘ فلپائن‘ بھوٹان‘ چائنا ہر نسل کے لوگوں کے گھر ہیں ہر گھر کے سامنے بڑی گاڑیاں کھڑی ہیں‘گاڑیاں رکتی ہیں لوگ اترتے ہیں گھروں کے اندر غائب ہو جاتے ہیں بالکل آمنے سامنے آجائیں تو ’ہائے‘ کہہ دیتے ہیں‘اسی طرح گھروں کے اندر سے صبح سویرے بتدریج ایک دو لوگ نکلتے ہیں گاڑیوں میں بیٹھے بیٹھے گیراج سے نکلتے ہیں اور خود کار نظام کے تحت گیراج بٹن سے بند ہوجاتا ہے اور گاڑیاں دوسری گاڑیوں کے ریلے میں کھو جاتی ہیں یہاں کوئی کسی کا ہمسایہ نہیں یہاں کوئی ایک دوسرے کو نہیں پہچانتا یہاں دکھ درد بانٹنے کا کوئی رواج نہیں چاہے آپ کو یہاں رہتے ہوئے چار مہینے ہو گئے ہیں یا چار سال یا پھر چالیس سال ساتھ والی دیوار کو کوئی غرض نہیں کہ آپ کون ہیں کیا کام کرتے ہیں آپ کے گھر میں کون کون ہے آپ بھوکے ہیں یا بیمار ہیں آپ کا خاندان کیا ہے آپ اچھے ہیں یا برے ہیں۔ بس اسی دنیا کا نام کینیڈا ہے جہاں دنیا کے امیر ترین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اپنی زندگیوں کو مزید نکھارنے کیلئے ترقی یافتہ ملک کی امیگریشن حاصل کرنے کے لئے جان جوکھوں سے گزرتے ہیں‘ یہاں پٹرول پمپس‘کھانے پینے کی دکانوں پر سیلز کا کام کرنے‘ کارخانوں میں مزدوری کرنے‘ کوڑا اٹھانے‘ گوشت کاٹنے اور بے شمار ایسے کام جو ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کبھی بھی نہیں کرتے یہاں آکر زندگی کو رواں رکھنے کیلئے کرتے ہیں شاید دولت دنیا کے باوجود اپنی پہچان کھو دینے کا نام امیگریشن ہے۔