ایسا بولنا کس کام کا

ایسے کئی لوگ ہیں جب ان سے آپ ملتے ہیں تو چند واقعات‘ حادثات یا مکالات آپ کو بار بار سناتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب باتیں وہ پہلے بھی کئی بار آپ کو سنا چکے ہیں اور سننے والا بھی ایسا شریف النفس کہ ہر بار ملنے پر یہ تمام باتیں دو بارہ سننے پر بھی ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا خاموشی سے سنتا رہتا ہے شاید یہ سب اس کو ازبر ہو چکا ہوتا ہے سنانے والا یا تو بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہوتاہے یا پھر وہ بولنے کا اس حد تک شوقین ہوتا ہے کہ بار بار اپنے واقعات سنا سنا کر بھی نہیں تھکتا‘ ایسے میں ایک التماس ہے کہ جب آپ کسی بات کو کئی بار کہہ چکے ہیں تو بہتر ہے خاموش رہئے کچھ ہمارے بہن بھائی ایسے ہوتے ہیں کہ جب بھی زبان سے کچھ بولیں گے سننے والے کو ناگواری کا احساس ہوگا وہ ایسا کوئی قصہ لے بیٹھیں گے جس میں کسی کی برائی کا پہلو نکلتا ہے کسی پر تنقید بنتی ہے کسی کی عیب جوئی ہے کسی کی پسند ناپسند سے آپ کی کہانی ٹکراتی ہے تو ایسے میں بھی سننے والا پہلو بدلتا ہے سنانے والے کو جب ایسا لگے کہ میری بات میری کہانی میری تنقید میرے دوست یا رشتے دار کو ناگوار گزر رہی ہے تو ایسے میں موضوع کو بدل دینا اور خاموش ہو جانا ہی بہترین ہوتا ہے آپ نے روزمرہ زندگی میں ایسے کئی لوگ دیکھیں ہونگے جو بہت زیادہ بولتے ہیں اور اپنی اس بے تکان بول چال میں ایسی کئی باتیں بھی کر ڈالتے ہیں کہ وہ باتیں کر کے ان کو سخت پچھتاوے کا احساس ہوتا ہے ایسا بولنا کس کام کا کہ بول کر پچھتایا جائے منہ سے نکلا ہوا لفظ کبھی بھی واپس نہیں لیا جا سکتا‘ اور نہ ہی سننے والا بھولنے کو تیار ہوتا ہے اور سخت الفاظ ایسا پچھتاوا بن جاتے ہیں کہ اچھے بھلے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اس سے بہتر یہی ہے کہ کم بولا جائے خاموش رہا جائے‘پہلے دل میں الفاظ کو تولا جائے اور پھر بولا جائے‘ آپ نے دیکھا ہوگا کئی ایسے لوگ حلقہ احباب میں ہوتے ہیں کہ وہ کہنا کچھ چاہتے ہیں اور ان کی زبان کہہ کچھ جاتی ہے یعنی ان کو اپنے خلوص کو لفظوں کا لباس پہنانا بالکل بھی نہیں آتا وہ اپنے پیار اور خلوص کو بیان نہیں کر سکتے اور بات الٹی ہو جاتی ہے ایسے میں اردو ادب میں ہمیشہ ایک جملے کی مثال دی جاتی ہے اٹھو مت بیٹھو‘ اس جملے کو ذرا سے ردوبدل سے دیکھیں تو جملہ یکسر تبدیل ہوجاتا ہے اٹھو‘ مت بیٹھو‘ اور اٹھو مت بیٹھو‘ بس یہی الفاظ کا ہیر پھیر گفتگو کو اچھا یا پھر پرا بنادیتا ہے۔ کچھ ایسے لوگوں کو بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ ہر بات میں ٹانگ لٹکاتے ہیں ٹانگ اڑانا محاورہ ہے یعنی ہرمعاملے میں اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں جیسے دو تین لوگ بیٹھ کر اپنے ذاتی معاملات طے کر رہے ہیں اور اس وقت بے تکے مشورے دینا‘ ان کی باتوں میں دخل اندازی کرنا‘ نہایت ہی بھونڈا پن اور آپ کی ذات کو ہلکا کر دیتا ہے‘ خاموش بیٹھ جائیے اور سنیے ویسے تو ہٹ جایئے کہ وہ اپنے معاملات طے کر لیں لیکن اگر بیٹھنا ضروری ہے تو پھر خاموش رہئے اور سنیے اپنی رائے ہر گز نہ دیجئے ہاں اگر آپ کو گفتگو میں شامل ہونے کی  دعوت دی جائے تو اچھا بولئے اور جب ایک ایسی محفل میں آپ بیٹھے ہیں جہاں آپ کو کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا بے پناہ موقع مل رہا ہو تو پھر تو باادب اور خاموش ہو کر اس بہترین موقع سے خوب فائدہ اٹھائیے ایسے مواقع بھی زندگی میں کم ہی میسر آتے ہیں کہ علم کے خزانے بہائے جا رہے ہوں اور ان سے استفادہ کرنیوالے ہمہ تن گوش ہوں‘ ایک ایسی محفل بھی آپ کو دیکھنے کو ملتی ہے جہاں ایسی بحث ہو رہی ہے کہ جس کے موضوع پر آپ کی معلومات بہت کم ہیں تو کوشش کیجئے کہ ایسی بحث میں بالکل حصہ نہ لیں‘ ہم اپنی براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں دیکھتے اور پڑھتے ہیں  کہ انٹرویو لینے والا اپنے انٹرویو سے سوالات کرتا ہے اور پھر اس کے جواب کے درمیان میں حصہ بھی لے رہا ہوتا ہے اور لقمے دے رہا ہوتاہے سن رہا ہوتا ہے جی جی‘ ہاں ہاں‘ کر رہا ہوتا ہے یہ سب پیشہ ورانہ طورپر بالکل غلط ہوتا ہے جب انٹرویوز نے سوال کر دیا تو انٹرویو  کا جواب غور سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے ہاں جہاں وہ ذرا خاموش ہو جائے تو اگلا سوال کیا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس وقت توبالکل خاموش رہنا چاہئے اور تحمل کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہئے جب آپ کو غصہ آجائے ایسے میں ہو سکے تو بیٹھ جائے اور پانی پی لیجئے تاکہ آپ کا غصہ کم ہو جائے خاموشی کو سونے کی طرح قیمتی ایسے ہی نہیں کہا جاتا۔