پاکستان اور ایران سمیت دیگر مملک نے افغان طالبان نے کڑے مطالبات رکھے ہیں، جب کہ روس نے طالبان کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل نئی حکومت بنائی جائے۔
ماسکو کانفرنس میں 10 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی، اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور ترکی کے سفیروں کو ماسکو فارمیٹ میں مبصرین کے طور پر مدعو کیا گیا۔
کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے قائم مقام افغان وزیر خارجہ عامر خان متقی کا کہنا تھا کہ امارت اسلامیہ دوسروں کو حکمرانی کے طریقے تجویز نہیں کرتی، لہذا وہ توقع کرتی ہے کہ علاقائی ممالک افغانستان کی حکومت کی تشکیل کے لئے نسخے دینے کے بجائے امارت اسلامیہ کے ساتھ بات چیت کریں۔
عامر خان متقی کا کہنا تھا کہ ہم تمام ممالک بالخصوص اپنے ہمسایہ ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں حکمرانی کا حکم نہ دیں، بلکہ امارت اسلامیہ کے ساتھ مل کر تمام شعبوں میں باضابطہ طور پر کام کرنا شروع کریں۔
افغانستان کے لیے روس کے خصوصی ایلچی ضمیر کابلوف کا کہنا تھا کہ طالبان افغانستان میں کالعدم داعش سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف مناسب کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ضمیر کابلوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے مغربی ممالک کو افغانستان کی تعمیر نو کا بنیادی بوجھ برداشت کرنا چاہیے، اس سلسلے میں واشنگٹن کی جانب سے افغان مالیاتی اثاثوں کو بلاک کرنا نقصان دہ ہے اور اس سے صورت حال مزید خراب ہوتی ہے، جس سے عام افغانوں کے لیے پہلے سے ہی مشکل حالات مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
خصوصی ایلچی نے کہا کہ ہم کسی بھی صورت میں افغانستان اور ہمسایہ ممالک کی سرزمین پر امریکی اور نیٹو کے فوجی انفراسٹرکچر کی واپسی کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ اس معاملے پر کوئی بھی وجوہات پیش کرسکتے ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان یو شیاؤ یونگ نے کہا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں تباہی مچائی، علاقائی اور بین الاقوامی برادری کو امریکا پر زور دینا چاہیے کہ وہ افغانستان کے لیے اپنے وعدوں پر پورا اترے اور افغانستان کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
چینی نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ افغان عوام کی تباہی اور مصائب کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کی امداد میں کٹوتی کی ہے، اس کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں اور یکطرفہ پابندیاں عائد کر دی ہیں، جس سے افغان عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان اور ایران کے سفیروں نے افغانستان کے ساتھ رابطے کی ضرورت پر بھی زور دیا لیکن ملک میں ایک جامع حکومت کی تشکیل پر زور دیا۔
افغانستان کے لیے ایران کے خصوصی ایلچی حسن کاظمی قمی نے اس بات پر زور دیا کہ صنفی امتیاز کے بغیر افغانستان میں تعلیم کے حقوق کو یقینی بنایا جائے اور ایک ایسی قانونی سیاسی حکومت قائم کی جائے جس میں افغانستان کے تمام نسلی گروہوں کو قبول کیا جائے اور ہمسایوں کی سلامتی کی ضمانت دی جائے۔