مختلف مسائل کا سامنا 

کالم کے آ غاز میں چند اقوال زریں پیش خدمت ہیں بہترین دولتمندی یہ ہے کہ تمناﺅں کو ترک کر دیا جائے سب سے بڑی دولت مندی یہ بھی ہے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جو ہے اس کی آ س نہ رکھی جائے‘ حسد کی کمی بدن کی تندرستی کاسبب ہے‘ جس درخت کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں‘اب ذرا بعض اہم قومی اور عالمی امور کا تذکرہ ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ‘وطن عزیز کو اتنے گھمبیر اور لاتعداد مسائل کا سامنا ہے کہ اس بات کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ ان میں سے کس کا ذکر پہلے کیا جائے اور کس کا بعد میں‘دشمن ہم پر چاروں اطراف سے حملہ زن ہے اب جب کہ ہماری وزارت داخلہ نے ایک لمبے عرصے کے خواب غفلت سے بیدار ہونے کے بعد یہ جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانی یکم نومبر تک پاکستان کی سر زمین چھوڑ دیں ورنہ ان کو زبردستی ڈی پورٹ کر دیا جائے گا تو اس پر افغان حکومت نے سیخ پا ہو کر پاک افغان بارڈر پر انتشار کی کیفیت پیدا کر دی ہے ملک کا ہر باسی ارباب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں سے توقع رکھتا ہے کہ جن مشکلات سے یہ ملک دوچار ہے ان کے پیش نظر انہیں سر دست آ پس کے تمام اختلافات پس پشت رکھ کر ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر شیر و شکر ہو کر سر جوڑ کر ملک کے درپیش مسائل کا صلاح و مشورے کے بعد حل ڈھونڈنا چاہیے اگر انہوں
 نے وسیع القلبی کا مظاہرہ نہ کیا تو اس کا فائدہ صرف اور صرف ان عناصر کو ہوگا جو اس ملک کی بقا کو ختم کرنے کے درپے ہیں جہاں تک اس حقیقت کا تعلق ہے کہ ہم سر کے بال سے لے کر پاﺅں کے انگھوٹے تک بیرونی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیںاس کا ایک حل کسی منچلے نے تجاہل عارفانہ میں یہ کہہ کر کیا خوب نکالا ہے کہ ہمارے وہ تمام سابقہ اور موجودہ ارباب اقتدار
 کہ جنہوں نے اس ملک سے پیسہ نکال کر بیرون ملک پراپرٹی میں یا بنکوں میں انوسٹ کر رکھا ہے وہ اسے نکال کر اگر پاکستان کے خزانے میں جمع کر دیں تو اس عمل سے پاکستان اپنا تمام بیرونی قرضہ اتار سکتا ہے ۔ بھارت جس تیزی سے ان پانیوں کے ذخیرہ کو سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف ڈیموں کی تعمیر سے ختم کر رہا ہے کہ اس کا تدارک بھی ازحد ضروری ہے ورنہ وطن عزیز کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘ غلام اسحاق خان کہا کرتے تھے کہ روپے کے نوٹ درختوں پر نہیں اگتے ملک چلانے کیلئے ریونیو پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ‘ان ممالک کی معیشت کا ستیا ناس ہو جاتاہے جس ملک کی برآمدات اور درآمدات میں بیلنس نہیں ہوتا ان کا پھر بھٹہ جلد بیٹھ جاتاہے اسکے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی اکثر کہا کرتے کہ ہر انسان کو اور ہر ملک کو اپنے پاﺅں اس قدر پھیلانے چاہئیں کہ جتنی لمبی اس کی چادر ہو‘ آمدنی سے زیادہ اخراجات معاشی خودکشی کے مترادف ہوتے ہیں۔