افغانستان میں زلزلے سے بے گھر ہزاروں افراد سخت موسم سرما سے پریشان

افغانستان میں آنے والے طاقتور زلزلے سے بچ جانے والے ہزاروں افراد بے گھر ہونے جانے کے بعد اب بدترین سردیوں سے بچنے کے لیے کوشاں ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گزشتہ ہفتے افغانستان میں آنے والے 6.3 شدت کے زلزلے میں 2 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ صوبہ ہرات میں رضاکا کدال کے ساتھ کام میں مصروف ہیں کیونکہ آفٹر شاکس آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اقوام متحدہ نے کہا کہ تقریباً 1700 خاندانوں کے 12ہزار سے زیادہ افراد اس زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ زیندا جان ضلع کے 11 دیہاتوں میں 100 فیصد گھر تباہ ہو گئے ہیں۔

نایب رفیع کے گاؤں میں زرین کے خاندان کے 11 افراد دیواریں گرنے سے جاں بحق ہو گئے اور زرین نے کہا کہ امدادی خیمے موسم سرما کے طوفان اور شدید سردی کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔

عمر کی 70 سے زائد بہاریں دیکھ لینے والے زرین نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر حکومت ہمیں نہیں لے جاتی یا ہماری مدد نہیں کرتی ہے تو ہم یہیں پھنس جائیں گے۔

بڑے پیمانے پر پناہ گاہیں فراہم کرنا افغانستان کے طالبان حکام کے لیے ایک چیلنج ہو گا جنہوں نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالا تھا اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہیں جس کی وجہ سے عالمی برادری سے امداد ملنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔

40 سالہ محمد نعیم نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی والدہ سمیت 12 رشتہ داروں کو کھو دیا ہے، ایک گھر بھی نہیں بچا، یہاں تک کہ ایک کمرہ بھی نہیں جہاں ہم رات کو ٹھہر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں مزید نہیں رہ سکتے، آپ دیکھ سکتے ہیں، ہمارا خاندان یہاں شہید ہوا۔ ہم یہاں کیسے رہ سکتے ہیں؟۔

ہرات شہر کے صوبائی دارالحکومت میں زلزلے کے مرکز سے 30 کلومیٹر دور جنوب مشرق میں زندا جان ضلع تک پہنچنا مشکل ہے اور ڈاکٹروں ود آؤٹ بارڈرز نے کہا ہے کہ زخمیوں کو اب ایک نئی آزمائش کا سامنا ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر کہا کہ گزشتہ روز ڈسچارج ہونے والے 340 سے زیادہ مریض ہسپتال چھوڑنا نہیں چاہتے کیونکہ ان کے پاس واپس جا کر رہنے کے لیے کوئی گھر نہیں ہے۔

حکام نے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے حوالے سے متضاد اعداد و شمار بتائے ہیں لیکن متعلقہ وزارت نے کہا ہے کہ زلزلے میں 2 ہزار 53 افراد ہلاک ہوئے۔

ڈیزاسٹر مینجمنٹ منسٹری کے ترجمان ملا جانان صائق نے کہا کہ ہم ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی صحیح تعداد نہیں بتا سکتے کیونکہ یہ بہت زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ نے منگل کو کہا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد تقریباً 1300 ہے جبکہ تقریباً 500 افراد لاپتا ہیں جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔

افغانستان اکثر زلزلوں کی زد میں رہتا ہے لیکن ہفتے کے آخر میں آنے والا یہ زلزلہ 25 سال میں آنے والا سب سے بدترین زلزلہ ہے۔

طالبان حکام نے افغانستان میں خواتین پر اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں(این جی اوز) کے لیے کام کرنے پر پابندی لگا دی ہے، جس سے ملک کے پسماندوں علاقوں میں خاندانی ضروریات کا اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ طالبان حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بچاؤ کے اقدامات اور امدادی سرگرمیاں بلا امتیاز انجام دی جائیں اور متاثرہ علاقوں تک انسانی ہمدردی کے اداروں کو غیر محدود رسائی دینے کی ضمانت دی جائے۔

جنوبی ایشیا کے علاقائی محقق زمان سلطانی نے کہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ امداد سب سے زیادہ خطرات سے دوچار افراد کی ضروریات کو پورا کرے جو اکثر بحرانی حالات میں پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں۔

افغانستان میں زیادہ تر دیہی گھر مٹی سے بنے ہیں جن کے گرد لکڑی کے سپورٹ پولز بنائے گئے ہیں اور ان میں جدید اسٹیل کا استعمال کم کیا جاتا ہے۔

طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد غیر ملکی امداد نہ ہونے اور افغانستان کے منجمد کیے جانے کے بعد ملک پہلے ہی سنگین انسانی بحران کا شکار ہے۔

صوبہ ہرات ایران کی سرحد سے متصل تقریباً 19 لاکھ نفوس پر مشتمل گاؤں ہے جو برسوں خشک سالی کی زد میں ہے جس سے وہاں کے رہائشی ابتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

زلزلوں سے متاثرہ افغانستان کے صوبے پکتیکا میں گزشتہ سال جون میں 5.9 شدت کے زلزلے میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور دسیوں ہزار بے گھر ہو گئے تھے۔

1998 میں تخار صوبے میں آنے والے 6.5 شدت کے زلزلے میں 4ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔