چینی صدر شی جن پنگ نے مصر کے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ چین مشرق وسطیٰ میں ’مزید استحکام‘ لانے کے لیے مصر کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امید رکھتا ہے۔
خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق چین کے سرکاری نشریاتی ادارے ’سی سی ٹی وی‘ نے بتایا کہ شی جن پنگ نے بیجنگ میں ایک ملاقات کے دوران مصری وزیر اعظم مصطفیٰ مدبولی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین مصر کے ساتھ تعاون بڑھانے اور خطے اور دنیا میں مزید یقین اور استحکام پیدا کرنے کا خواہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین اور مصر اچھے دوست ہیں جو یکساں اہداف رکھتے ہیں اور ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، دونوں ممالک اچھے شراکت دار ہیں جو ترقی اور مشترکہ خوشحالی کے لیے ہاتھ سے ہاتھ ملا کر کام کرتے ہیں۔
چینی صدر نے مزید کہا کہ اس وقت بین الاقوامی اور علاقائی صورتحال گہری اور پیچیدہ تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، دنیا میں ایسی تیز رفتار تبدیلیاں آرہی ہیں جو پوری ایک صدی میں بھی نہیں دیکھی گئیں۔
غزہ میں 20 امدادی ٹرک پہنچانے کیلئے مصر رفح کراسنگ کھولے گا، جوبائیڈن
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے رفح کراسنگ کھولنے پر رضامندی ظاہر کی ہے تاکہ غزہ کے لیے انسانی امداد کے 20 ٹرکوں کی پہلی کھیپ کو گزرنے کی اجازت دی جا سکے۔
خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جوبائیڈن نے اسرائیل کے دورے سے واپسی کے دوران ’ایئر فورس ون‘ سے عبدالفتاح السیسی کو فون کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے آغاز میں 20 امدادی ٹرک لے جانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
جوبائیڈن نے کہا کہ کراسنگ کے آس پاس کی سڑک کو مرمت کی ضرورت ہے اس لیے ممکنہ طور پر امدادی ٹرک جمعے سے پہلے روانہ نہیں کیے جاسکیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ سڑک کی مرمت کی جا رہی ہے، ان ٹرکوں کے گزرنے کے لیے وہاں موجود گڑھے بھرنے پڑیں گے، یہ ہونے والا ہے، انہیں توقع ہے کہ اس میں 8 گھنٹے لگیں گے۔
امریکی صدر نے کہا کہ اقوام متحدہ غزہ کی سرحد کے اطراف میں امداد تقسیم کرنے کے لیے تیار ہے، پہلے 20 ٹرک حماس کو کوئی فائدہ پہنچے بغیر امداد کی تقسیم کے نظام کا امتحان ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حماس نے یہ امداد ضبط کر لی یا اسے گزرنے نہ دیا تو امداد کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا کیونکہ اگر حماس اسے ضبط کرے گی تو ہم کوئی انسانی امداد نہیں بھیجیں گے، یہی وہ تہیہ ہے جو میں نے کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امداد کی پہلی کھیپ 20 ٹرکوں پر مشتمل ہوگی لیکن مجموعی طور پر 150 یا اس سے کچھ زیادہ ٹرک ہیں، اِن باقی ٹرکوں کو فی الحال گزرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، حالات کو دیکھ کر اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عبدالفتاح السیسی حقیقی کریڈٹ کے مستحق ہیں، وہ بہت ملنسار ہیں۔
بائیڈن نے اپنے دورے کو کامیاب قرار دیا اور اپنے اتحادی اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کا اظہار کیا، انہوں نے غزہ میں امداد کی اجازت دینے کی ضرورت کے حوالے سے دوٹوک انداز میں اسرائیلیوں پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ متاثرین کی تکلیف کو کم کرسکتے ہیں تو آپ کو یہ ضرور کرنا چاہیے، اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ دنیا بھر میں ساکھ کھو دیں گے اور مجھے لگتا ہے کہ ہر کوئی یہ بات سمجھتا ہے۔
مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ، مزید 3 فلسطینی جاں بحق
فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’وفا‘ نے بتایا کہ آج علی الصبح مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 2 نوجوانوں سمیت 3 فلسطینیوں کو علیحدہ علیحدہ واقعات میں قتل کر دیا گیا۔
اسرائیلی فورسز نے رام اللہ کے مغرب میں واقع گاؤں بدرس پر حملہ کر دیا، اس دوران ایک نوجوان جبریل عواد کو گولی مار کر قتل اور ایک کو زخمی کر دیا گیا۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق دیگر واقعات میں بیت لحم کے جنوب میں واقع پناہ گزین کیمپ میں ایک 14 سالہ نوجوان سر میں گولی لگنے سے جاں بحق ہو گیا، طولکرم قصبے میں ایک 16 سالہ نوجوان گولی لگنے سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کرنے پر سینئر امریکی عہدیدار مستعفی
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے یہ اعلان کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے کہ وہ امریکا کی جانب سے اسرائیل کو فوجی امداد کی مزید حمایت نہیں کر سکتے۔
محکمہ خارجہ کے سیاسی-عسکری امور کے مستعفی ڈائریکٹر جوش پال نے ’لنکڈ ان‘ پر پوسٹ کیے گئے ایک خط میں لکھا کہ امریکی فوجی امداد اسرائیل کو غزہ کے خلاف بلا روک ٹوک کارروائی کرنے کی اجازت دے رہی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ اس میں کتنے عام شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
جوش پال نے امریکی انتظامیہ کے ردعمل کو ’فکری دیوالیہ پن‘ پر مبنی ایک جذباتی ردعمل قرار دیا، انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فراہمی کا فیصلہ انتہائی جذباتی اور مایوس کن ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اب مسلسل ایک فریق کو ہتھیار فراہم کرنے کی حمایت نہیں کر سکتا، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کرنے کے قابل ہوں، چاہے انہیں کوئی بھی سرانجام دے رہا ہو۔