بڑھاپا بذاتِ خود ایک بہت بڑی بیماری ہے اس لئے کتابوں میں پڑھا ہے اور بزرگوں سے سنا ہے کہ لمبی عمر کی دعا نہ کیا کرو بلکہ یہ دعا کرو کہ خدا ہر ایک کو اچھی صحت کے ساتھ لمبی زندگی دے مشرقی معاشرے میں تو اب تک بال بچے کبیر سنی میں اپنے والدین کا خیال رکھتے تھے جائنٹ فیملی joint family system تھا پر جن لوگوں کو مغرب کی ہوا لگی ہے وہ اب بڑے بوڑھوں کو اپنے اوپر ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں یورپ نے تو اس مسئلے کایہ حل نکالا ہے کہ ہر ملک نے اپنے ہاں اولڈ ہومز کا ایک جال بچھا دیا ہے جس میں معاشرے کے مخیر افراد کے خرچے اور یا پھر سرکار کے پیسوں پر بزرگ افراد کے قیام و طعام و علاج معالجہ کا ایک مربوط نظام موجود ہے جہاں معمر افرادکے کھانے پینے کا یا بیماری کی صورت میں اسے مناسب دواؤں کی فراہمی کا بہترین انتظام موجود ہے‘ ان اولڈ ہومز میں ان کی چوبیس گھنٹے دیکھ بھال کے واسطے مرد اور خواتین نرسنگ سٹاف موجود رہتا ہے اس ملک میں بھی ایدھی کی طرح اللہ ایسے افراد پیدا کرے کہ جو جگہ جگہ اولڈہومزکا ایک جال بچھا دیں کیونکہ یہ کام تن تنہا کرنا کسی بھی حکومت کے بس کا روگ نہیں ہے‘ وطن عزیز میں ہزاروں افراد ایسے ہیں کہ جو اربوں روپوں میں کھیلتے ہیں اور اچھی خاصی دولت پر سانپ بنے بیھٹے ہیں‘ لیکن ان کی نظر معاشرے کے ان طبقوں کی طرف نہیں اٹھتی کہ جو پائی پائی کے محتاج ہیں‘ روزی کما نہیں سکتے کیونکہ یا تو وہ جسمانی طور پر معذور ہیں اور یا پھر کبیر سنی سے گزر رہے ہیں‘ الیکشن میں ووٹ ڈالتے وقت ہر ووٹر یہ ضرور دیکھے کہ کونسی سیاسی جماعت ایسی ہے کہ جس نے اپنے منشور میں معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں بشمول کبیر سنی سے گزرنے والے افراد کی فلاح کے واسطے کیا وعدہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ کیسے اور کتنے عرصے میں یہ نیک کام سر انجام دے گی۔ اگلے روز خیبرپختونخوا کے نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان وفات پاگئے‘ مرحوم کئی صفات کے مالک تھے نہایت ہی حلیم طبع ایک شریف النفس انسان تھے اعلیٰ انتظامی مناصب پر فائز رہے ان کا دامن کرپشن سے پاک صاف رہا وہ ایک محتاط اور صاف ستھری زندگی گزار گئے‘ سول سرونٹس کو اس طرز کی زندگی گزارنی چاہئے جس طرح انہوں نے گزاری خدا لگتی یہ ہے کہ اعظم خان جیسے سول سرونٹس شاذ ہی پیدا ہوتے ہیں۔ گیارہ سال بعد ایرانی صدر کا دورہ سعودی عرب مسلم امہ کے لئے نیک فال ہے ماضی قریب میں ایران اور سعودی عرب کے مابین اختلافات سے غیر مسلم ممالک نے کافی فائدہ اٹھایا ہے۔اس وقت ملک جن معاشی مشکلات سے دوچار ہے وہ سب کو معلوم ہے اور ماہرین معاشیات کی آراء سے قطع نظر ان مشکلات سے نکلنے کیلئے جو سب سے اہم نکتہ ہے وہ کفایت شعاری ہے۔ جب بھی ملک کی معیشت کی زبوں حالی کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے اکثر رہنما بھلے ان کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا حزب اقتدار سے وہ حد سے زیادہ در آمدات کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں پر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ سامان تعیش یعنی ایسی اشیاء جن کی روزمرہ زندگی میں ضرورت نہیں ہوتی کی درآمدات کو ختم کرنے یا کم کرنے کیلے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے‘آپ کو سڑکوں پر مہنگی ترین گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں کیونکہ پیسہ رکھنے والے کروفر سے کروڑوں روپے کی مالیت کی لمبی چوڑی گاڑیاں درآمد کر رہے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ آپ کو ہر محل نما بنگلوں کے پورچ میں ایک سے زیادہ قیمتی گاڑیاں کھڑی نظر آئیں گی اگر ہم اپنی ضرورت کے مطابق اشیاء کے استعمال کے اصول پر کاربند رہیں تو یقینی طور پر ہمارے بہت سے مسائل ختم ہو سکتے ہیں اور معاشی مشکلات جن کا ہم کو بحیثیت قوم اس وقت سامنا ہے ان سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔