اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کے معاملے میں شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے 10 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جرم پراکسانے، جرم کی سازش یا معاونت کرنے والے کو مرکزی جرم کرنے کی طرح ہی دیکھا جائے گا۔
10 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نیازی اور شاہ محمود قریشی پر آفیشل سیکریٹس ایکٹ کا سیکشن 9 لگایا گیا ہے جس میں سزا موت یا عمر قید بنتی ہے۔
فیصلے میں ٓیہ بھی کہا گیا ہے کہ ملزمان نے آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ مانگا جس کے تحت سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران ہونے والے اقدامات پر صدر، گورنر اور وزرا کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی۔
تاہم عدالت نے واضح کیا کہ عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے سائفر کے حوالے سے انکشاف گذشتہ برس 27 مارچ کو جلسے میں کیے (فیصلے میں سال 2023 درج ہے تاہم بظاہر حوالہ 27 مارچ 2022 کے جلسے کا ہے) جبکہ شاہ محمود قریشی نے ان کی معاونت کی۔ عدالت نے لکھا کہ یہ فعل سرکاری فرائض کی انجام دہی کے زمرے میں نہیں آتا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان پر لگی دفعات میں سزا عمر قید اور سزائے موت ہے جب کہ شاہ محمود قریشی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بلا شبہ ضمانت سزا روکنا نہیں، عمر قید اور سزائے موت کے ملزمان کو عدالتیں ضمانت دینے میں احتیاط سے کام لیتی ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اس قسم کے کیسز میں جب تک معقول وجہ موجود نہ ہو ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت ضمانت مسترد کرکے ہدایت کرتی ہے کہ ٹرائل 4 ہفتے میں مکمل کیا جائے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سائفر کیس کا ٹرائل روکنے کے حکم میں توسیع کر رکھی ہے۔
اٹارنی جنرل کا ہائی کورٹ میں کہنا تھا کہ سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو سزائے موت نہیں ہوگی۔ جس پر عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہ کہ اٹارنی جنرل تو خود کہہ رہے پراسیکیوشن میں کامیاب نہیں ہوں گے۔