کئی دہائیوں قبل پشاور میں اتنی سخت سردی پڑتی تھی کہ اس کو قابو کرنا مشکل ہوتا تھا‘ لنڈے کے سوئیٹروں کا دور دور تک کوئی رواج نہ تھا‘ نہ ہی سوئی گیس جیسی کوئی نعمت میسر تھی‘ زیادہ سے زیادہ کوئلے ہوتے تھے جن کو منکر (Mancar) میں سرخ کر کے صحن میں یا اپنے قریب رکھ دیا جاتا تھا تاکہ ٹھنڈ سے بچا جا سکے۔ ان دنوں مینا بازار کی دکانیں اون سے بھری پڑی رہتی تھیں‘ رنگ برنگ اون کے لچھے سوئیٹروں کی ضرورت پوری کرتے تھے‘ سوئیٹر بننے کا رواج عام تھا کئی خواتین مزدوری پر سوئیٹر‘ ٹوپیاں‘ جرابیں بنتی تھیں پھر بھی سردی سے اپنے آپ کو بچانا مشکل ہوتا تھا۔ پشاوری گھرانوں میں سخت سردی سے بچنے کے لئے جو روایت یا تہذیب استعمال کی جاتی تھی وہ صندلی تھی‘ بہت بڑے لحاف میں جو خصوصی طور پر اس مقصد کے لئے بنایا جاتا تھا یہ چوکور لحاف ہوتا تھا اور عام لحاف سے سائز میں دوگنا تگنا بڑا ہوتا تھا تاکہ خاندان کے تمام افراد اس لحاف میں چاروں جانب سے سما جائیں۔ ویسے تو گدیلے اور مُتکے رکھنا پشاور کے لوگوں کا ایک قدیم رہن سہن تھا‘ کمرے کے ایک جانب زمین پر قالین یا فرشی دری کے اوپر گدیلے رکھے جاتے تھے ان کے ارد گرد مُتکے سجا دیئے جاتے تھے‘ گھر کے افراد اور مہمان بھی اس کمرے میں بیٹھتے تھے یہ ایک فرشی نشست ہوتی تھی جس میں کھانا پینا بھی ادھر فرش پر ہی ہوتا تھا بس اس مقصد کے لئے دستر خوان یا پلاسٹک کی چادر بچھا دی جاتی تھی تاکہ کھانے پینے سے جو کچھ گندا ہو جائے اس کو صاف کر لیا جائے۔ صندلی کے لئے چاروں طرف گدیلے اور مُتکے رکھے جاتے تھے تاکہ چاروں طرف سے خاندان کے افراد اس میں سما سکیں‘ درمیان میں ایک چھوٹی سی لکڑی کی میز رکھی جاتی تھی جس کے پیندے میں ڈبل کر کے لکڑی کے تختے پیوست کئے جاتے تھے اور ان تختوں پر
کوئلے کی چھوٹے سے سائز کی انگیٹھی یا منکر رکھی جاتی تھی‘ اس بات کو یقینی بنایا جاتا تھا کہ انگیٹھی کے کوئلے پوری طرح سرخ ہو جائیں۔ ویسے تو اس پوری صندلی کے لئے ایک کوئلہ ہی کافی ہوتا تھا کیونکہ میز کے اوپر جب بڑے سائز کا لحاف پڑتا تھا تو بھاپ اندر ہی رہنے سے صندلی بے انتہا گرم ہو جاتی تھی یہ پورے خاندان کی سردی کو متوازن کرنے کے لئے کافی ہوتی تھی‘ پورا دن یہ صندلی گرم رہتی تھی جس کا دل چاہے تھوڑی دیر
کے لئے یا زیادہ دیر کے لئے اس میں آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم اپنی پڑھائی اسی صندلی میں بیٹھ کر کرتے تھے‘ پاؤں گرم ہو جانے سے سردی کا زور کم پڑ جاتا تھا اور امتحانات کی تیاری بھی صندلی میں ہی بیٹھ کر کی جاتی تھی۔ اگر کوئی رشتہ دار مہمان آ جاتا تھا تو وہ بھی ہمارے ساتھ صندلی میں آ کر بیٹھ جاتا تھا‘ صندلی میں بیٹھ کر خشک میوہ جات کھائے جاتے تھے۔ پشاور کے 99 فیصد گھروں میں صندلی ڈالنے کا رواج تھا ورنہ پشاور کی سردی سے نپٹنے کا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا‘ جس طرح پشاور کی سخت ترین گرمی پشاور کے گھروں کے تہہ خانے پوری کرتے تھے اسی طرح سردیوں میں صندلی کی ثقافت پشاور کی تہذیب کی عکاسی ہوتی تھی۔ صندلی کو لے کر اکثر
حادثات بھی ہوتے تھے‘ اگر کوئلوں کو بغیر سرخ کئے ہوئے میز کے اندر رکھ کے اوپر سے لحاف ڈال دیا جاتا تھا تو کوئلوں سے نکلنے والی زہریلی گیس حادثات کا مؤجب بن جاتی تھی اور اموات تک ہو جاتی تھیں بالکل ایسے ہی جیسے آج کل گیس کا ہیٹر کمرے کے اندر ساری رات رکھنے سے گیس کسی وقت بند ہو جانے کی صورت میں خطرناک حادثات ہو جاتے ہیں‘ دوسرا خطرہ آگ لگنے کا شدید تر ہوتا تھا کیونکہ لحاف روئی سے بنا ہوتا ہے اور روئی کو آگ لگنا بہت تھوڑی دیر کی بات ہوتی تھی اس لئے سمجھدار خاندان صبح سویرے سے جلنے والی انگیٹھی کو رات گئے لحاف سے نکال کر باہر کھلے صحن میں رکھ آتے تھے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے لیکن کم کم ہی پر ایسے حادثے ضرور سننے کو ملتے تھے کہ لحاف کو آگ لگ گئی اور مالی و جانی نقصان ہو گیا۔ آج کے اس لمحے میں تہہ خانوں والے گھر بھی گنتی کی تعداد میں رہ گئے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ کہیں پشاور میں صندلی کا رواج موجود ہو گا۔ گیس کے آ جانے سے اور ہیٹر کو ایک ماچس کی تیلی سے جلانے سے کمرہ منٹوں میں گرم ہو جاتا ہے بلکہ ایک گیس کا بلب بھی مجھے یاد ہے جس کو مینٹل کہا جاتا تھا اس کے ارد گرد جالی لپٹی ہوتی تھی اس کو ماچس کی تیلی سے جلایا جاتا تھا اور کمرہ روشن ہو جاتا تھا۔ نہ جانے آج کل بھی پشاور میں وہ مینٹل استعمال کیا جاتا ہے یا نہیں‘ میں اکثر سوچتی تھی اس کو مینٹل کیوں کہتے ہیں‘ بھلا روشنی دینے والا آلہ پاگل کیسے ہو سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہماری بہت سی خوبصورت روایات اور ثقافتوں کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے لیکن ان کی یادیں ہمارے پاس تو محفوظ ہیں نئی نسل ان کے ہونے کے لطف سے ناآشنا ہے‘ خاندان کو ایک جگہ جمع کرنے کا کام صندلی کرتی تھی‘ محبت‘ الفت اور رشتوں کو قریب ترین کرنے کا فریضہ بھی صندلی سرانجام دیتی تھی۔