پاکستان میں پیدا ہونے والا بچہ پاکستانی شہری ہے : افغان شہریوں کی ملک بدری اُور انسانی حقوق سے متعلق درخواست کی سماعت: نگران حکومت کے پاس غیر قانونی شہریوں کی بے دخلی کا مینڈیٹ نہیں

غیر قانونی طور پر مقیم دس لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو ملک بدری کی جاری مہم کے درمیان انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے دائر کردہ ایک درخواست پر سپریم کورٹ نے آج جمعے کو سماعت کی۔

درخواست گزاروں میں سے ایک فرحت اللہ بابر نے اپنی دلیل میں کہا کہ نگران حکومت کے پاس غیر قانونی شہریوں کی بے دخلی کا مینڈیٹ نہیں ہے اور جن افغان شہریوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے، وہ سیاسی پناہ کی درخواستیں دے چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان افغان شہریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کررہی ہے۔

فرحت اللہ بابرنے حکومت کے اختیارات کے متعلق پاکستانی آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت پالیسی معاملات پر حتمی فیصلہ کرنے کا آئینی اختیار نہیں رکھتی۔

درخواست گزاروں نے جمعرات کے روز عدالت میں افغان شہریوں کے بچوں کے حوالے سے ایک حلف نامہ بھی دائر کیا ہے۔ جس میں دلیل دی گئی ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا کوئی بھی بچہ، پاکستان کے شہریت قانون کی دفعہ چار کے تحت پاکستانی شہری ہوتا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آئینی حق کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے کو ملک سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔

کیس کی سماعت کرنے والی تین رکنی بنچ میں شامل جسٹس عائشہ ملک نے بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے معاہدے پناہ گزینوں کے حقوق کو تحفظ دیتے ہیں اور پاکستان اقوام متحدہ کے ان معاہدوں کا پابند ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاق، ایپکس کمیٹی، وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'غیر قانونی افغان شہریوں کو بے دخلی کا معاملہ آئینی تشریح کا بھی ہے۔‘

عدالت عظمیٰ نے جنرل معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دینے کے نقطے پر معاونت کرنے کو بھی کہا اورمقدمے کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔