لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے انسداد سموگ سے متعلق شہری فاروق ہارون و دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی، ڈی جی ماحولیات سمیت دیگر افسران عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت عدالت نے سیل ہونے والی فیکٹریوں کو ڈی سیل کے لیے جوڈیشل واٹر کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی۔
ڈی جی ماحولیات نے عدالت کو بتایا کہ محکمہ ماحولیات نے جو فیکٹریاں سیل کیں انڈسٹری مالکان نے خود سے انہیں ڈی سیل کردیا، خود سے انڈسٹریز والے ڈی سیل کرلیتے ہیں، محکمہ ماحولیات کے افسران سے حلف نامہ لیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو افسر رولز کی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف کاروائی ہوگی، محکمہ ماحولیات کے جن افسران کے نام عدالت نے دیئے انکے خلاف کاروائی شروع ہوچکی ہے۔
عدالت نے ڈی جی ماحولیات کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا، عدالت عالیہ نے افتخار سٹیل ملز کو دس لاکھ روپے جرمانہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے مل کو بھی سیل رکھنے کی ہدایت کردی۔
ممبر واٹر کمیشن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ رات کو آلودہ دھواں چھوڑنے والی فیکٹریاں چلتی ہیں، محکمہ ماحولیات کے افسران رشوت لیتے ہیں، عدالت نے محکمہ ماحولیات کے افسران کو فوری وارننگ جاری کرنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس شاہد کریم نے ڈی جی ماحولیات کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ ڈی جی صاحب! افسران کو بتا دیں اگر کسی کے علاقے میں آلودہ دھواں چھوڑنے والی فیکٹری کام کررہی ہوئی تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ مصنوعی بارش کا کیا بنا کب برسا رہے ہیں؟ جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ پلاننگ وغیرہ جاری ہے،جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس میں کہا کہ میں عوامی پیسہ خرچ کرنے کی اجازت نہیں دوں گا، آپ سموگ کے تدارک کے لیے اقدامات کرلیں وہی بہت ہیں۔
جسٹس شاہد کریم کا مزید کہا تھا کہ اس شہر کو پتہ نہیں کیا بنانا چاہتے ہیں، سموگ کے سیزن میں ترقیاتی منصوبے جاری ہیں جس پر کمشنر لاہور کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے رات کے وقت ترقیاتی منصوبوں پر کام کروانے کا نوٹیفکیشن جاری کررکھا ہے۔
بعدازاں عدالت نے سموگ کے تدارک کے لیے دائر درخواستوں پر مزید کارروائی 8 دسمبر تک ملتوی کردی۔