برصغیر میں فرنگیوں کے دور حکومت میں جن جن مقامی لوگوں نے ان کے سیاسی اور عسکری مقاصد کی تکمیل میں ان کی مدد یا معاونت کی تو اس کے صلے میں انہوں نے ان کو کافی مالی فوائد بھی دئیے آج ہم اسی سلسلے میں دو ایسی ہی شخصیات کا زکر کرنے چلے ہیں 1856 میں فرنگیوں کے خلاف برصغیر میں جو شورش اٹھی تھی اسے ہم تو جنگ آ زادی کہتے ہیں پر انگریز مورخ اسے غدر کے نام سے تعبیر کرتے ہیں بھارت کے شہر دلی میں اس کو ختم کرنے میں بریگیڈیئر جان نکلسن کا کلیدی کردار رہا تھا نکلسن کسی دور میں ڈپٹی کمشنر بنوں بھی رہا تھا اور اس کے دور میں بنوں جیسے ضلع جس کا کرائم ریٹ اس زمانے میں بہت زیادہ ہوا کرتا تھا کافی حد تک کنٹرول میں آ گیا تھا اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت سخت قسم کا ایڈمنسٹریٹر تھا نکلسن کے دو بیٹ مین تھے ان دونوں نے غدر کے دوران نکلسن کی کافی معاونت کی تھی غدر کے دوران جنگ میں نکلسن سخت لہو لہان ہو گیا تھا اور اس زخمی حالت میں اس نے وائسرائے ہند کو ایک خط تحریر کیا جس میں اس نے ان دو افراد کی وفاداری کی تعریف کرتے ہوئے یہ سفارش کی کہ اپنے اپنے علاقوں میں ان کو گھوڑوں پر بٹھایا جائے اور حد نظر تک گھوڑوں کو دوڑایا جائے اور وہ جس مقام تک جائیں اس کے نیچے آنے والی تمام اراضی انعام کے طور پر
ان دو وفا دار بیٹ مینوں کے نام لکھ دی جائے‘ جان نکلسن کی یاد میں فرنگیوں نے واہ کے قریب 1868ءمیں مینار کی شکل میں ایک یادگار میموریل بھی کھڑی کر دی جو آج بھی جی ٹی روڈ پر ترنول کے قریب ایستادہ ہے۔ آئیے اسی ضمن میں ایک دوسرے تاریخی قصے کا بھی ذکر ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں اگر آپ کو مالاکنڈ جانے کا اتفاق ہوا ہو تو چکدرہ کے قریب آپ کو ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ نما فوجی پکٹ دکھائی دے گی جو چرچل پکٹ کے نام سے مشہور ہے‘ چرچل برطانیہ کے مشہور زمانہ وزیر اعظم رہے ہیں وہ برصغیر میں فرنگیوں کے دور حکومت میں فرنگی فوج کے ساتھ بطور صحافتی نمائندہ مقرر ہو کر آئے تھے اور فرنگی فوج کے ایک دستے کے ساتھ باجوڑ اور مہمند ایجنسی کے درمیان نواگئی کے مقام پر تعینات تھے جس پکٹ کا ہم نے اوپر کی سطور میں ذکر کیا ہے اس پر مقامی قبائل نے قبضہ کر لیا تھا
اس کا قبضہ چھڑانے کیلئے چرچل کو فرنگی فوجیوں کی معیت میں مقامی قبائلیوں سے جنگ کرنا پڑی تھی جس کے نتیجے اس میں فرنگیوں کو فوقیت حاصل ہوئی تھی‘ اس وجہ سے اس پکٹ کا نام تاریخ کی کتابوں میں چرچل پکٹ پڑ گیا۔ یہ 1961ءکی بات ہے کہ جب چرچل انگلستان میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے اور اس وقت کی انگلستان کی ملکہ الزبتھ پاکستان کے دورے پر تھیں تو ان کے سوات کے دورے کے دوران انہیں چرچل پکٹ بھی لے جایا گیا اس موقع پر اس پکٹ میں ٹیلی فون کی ایک ہاٹ لائن نصب کی گئی جس کے ذریعے ملکہ انگلستان نے لندن میں موجود چرچل سے بات چیت کر کے انہیں بتایا کہ وہ اس پکٹ سے بات کر رہی ہیں کہ۔جس پر قبضہ کرنے کے واسطے انہوں نے کسی زمانے میں جنگ کی تھی اور اس طرح ایک تاریخی واقعے کو تازہ کیا اسی طرح اگر آپ کو شبقدر میں واقع فرنٹیئر کانسٹیبلری کے قلعے جانے کا اتفاق ہو تو اس کے اندر بھی ایک کمرے کا نام چرچل روم رکھا گیا ہے کیونکہ جب چرچل مہمند ایجنسی کے علاقے میں فرنگی فوج کے ساتھ دورے پر ہوتے تو وہ اس قلعہ میں قیام کرتے تھے۔ ان چند تاریخی حقائق
کے زکر کے بعد زیل کی سطور میں دور حاضر کے بعض اہم معاملات کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا۔ روسی صدر کا یہ بیان حوصلہ افزاءہے کہ پاک روس تعلقات واقعی دوستانہ ہیں اور باہمی تجارت متحرک ہے اور یہ کہ توانائی اور زراعت سمیت معیشت کے متعدد شعبوں میں تعاون بر قرار رہے گا اس ملک کے عام آدمی کا حوصلہ اس قسم کے بیان سے بڑھتا ہے یہ بیان پاکستان کی معیشت اور خاکہ پالیسی کے واسطے ہوا کے تازہ جھونکے کے مترادف ہے کیونکہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کیلئے اس سے بڑی بات کوئی نہیں کہ ہم روس کے ساتھ جتنے خوشگوار تعلقات رکھ سکیں رکھیں بالکل اسی طرح کہ جس طرح ہم چین کے ساتھ شیروشکر ہیں ان دو ممالک کے ساتھ رفاقت میں رہ کر ہم وطن عزیز کی بقا کو مضبوط تر بنا سکتے ہیں۔ مالی طور پر کمزور تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کو فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ اپنی جگہ پر جس بات کی اشد ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ میونسپل ادارے اپنے ٹیکسیشن سسٹم میں بھی اصلاحات کریں تاکہ ان کی مالی پوزیشن اس قابل ہو کہ انہوں نے رفاح عامہ کے واسطے جو انفراسٹرکچر کھڑا کیاہواہے اسکے سٹاف کی تنخواہیں تو وہ اداکر سکیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے سرکاری عمارتیں فارغ اوقات میں خوشحال پروگرام کے لئے مختص کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ایک راست اقدام ہے۔