دامن کوہ تو پاکستان کا حسین ترین پہاڑی سلسلہ کہا جا سکتا ہے‘ اس بار میں جب پہاڑ کے دامن میں پہنچی تو بہت کچھ بدل چکا تھا‘ کیونکہ ایک عجیب قسم کا ہجوم تھا شور تھا اور چلنے کا رستہ تک نہ تھا یہ وہ جگہ تھی جہاں کئی سال پہلے جب میں آئی تھی تو دنیا کی سب سے خاموش پرسکون اور نہایت دل کش جگہ یہی ہوتی تھی یہاں مجھے سکون کے ساتھ قدرت کے قریب ہونے کا موقع ملتا تھا شاید مجھے بھی یہاں آتے ہوئے دہائیاں لگ گئی تھیں جب شام کو کوے یہاں کے اونچے درختوں میں بنائے ہوئے اپنے گھونسلوں کو واپس لوٹتے تھے غول کے غول کالے سیاہ پروں کو سنبھالتے ہوئے وہ اپنی اپنی ٹہنی پر بیٹھتے جاتے تھے اور شاید اپنے تمام ساتھیوں کو اپنی آوازوں سے بتاتے تھے کہ میں بخیریت پہنچ گیا ہوں‘ ایک کچا سا کھوکھا جس کے سامنے چند کرسیاں اور ایک دو چار پائیاںپڑی ہوئی تھیں چیدہ چیدہ لوگ گزرتے رہتے تھے کھوکھے والا مشتاق ہماری فیملی سے اتنا شناسا تھا کہ ہمارے آتے ہی چائے کا پانی گرم کرنے لگ جاتا تھا اس کے پاس بڑے خوبصورت توانا کتے ہوئے تھے میرے بچے ان کیلئے روٹیاں لانا نہیں بھولتے تھے وہ ان کتوں کو روٹی کھلا کر خوش ہوتے رہے دور درختوں کی جھنڈ میں بنی ہوئی بے شمار سیڑھیاں اپنی طرف جیسے بلاتی تھیں جن کے اردگرد خود رو پھولوں کا ڈھیر ہوتا تھا ہم سب ان سیڑھیوں پر جوش کے ساتھ چڑھتے تھے جانے زندگی کے کتنے ہی پرسکون اور سکھ کے لمحات ان میں چھپے ہوئے تھے سیڑھیاں چڑھ کر ایک خفیہ راستہ جو اس چھوٹی سی پہاڑی کے اندر سے ہوتا ہوا پہاڑ کے اس ریلنگ لگے حصے کی طرف جاتا تھا جہاں نیچے اسلام آباد پرندے کی مانند پرپھیلائے اپنی خوبصورتیاں بکھیرتا تھا‘ میں اپنے بچوں کے ساتھ اس خفیہ راستے سے ہوتی ہوئی یہاں آئی تھی اور پھر ریلنگ سے لگ کر فیصل مسجد کا حسین نظارہ کرتی تھی‘ اسلام آباد کا نقشہ اسی لوہے کی ریلنگ سے نیچے سی ڈی اے کے کسی آرٹیٹک آفیسر کے آئیڈیا کو ظاہر کر تا تھا شاید پچاس سال پہلے بھی لوگ بہت ذہین‘ آرٹسٹک اور خوبصورت سوچوں کے مالک ہوتے تھے قائداعظم یونیورسٹی کو پہاڑ کے اوپر سے دیکھنا اپنے اندر اک حسین خوبصورتی رکھتا تھا اور ان نظاروں کی سیر کرنے والے بھی خوبصورت لوگ ہوتے تھے‘ صاف ستھری پگڈ نڈیاں‘ گند اور کوڑے سے پاک یہ علاقہ اسلام آباد کی شان تھا ‘نہ جانے میں اپنے قریب ترین ماضی میں کیوں کر گئی تھی سینکڑوں لوگوں کو دیکھ کر ہم ذرا زیادہ اوپر منال کی طرف چل پڑے یہاں تک پہنچنے کیلئے ہمیں چڑھائیوں پر غلط ٹریفک کی وجہ سے زیادہ دقت کا سامنا کرنا پڑا‘ مجھے تو ابھی تک ملال تھا کہ گھروں کو لوٹنے والے کوے کہاں گئے شام کا ہی وقت ہے درخت کٹ گئے ہیں مشتاق کا کھوکھا ایک پکے ریسٹوران میں تبدیل ہو چکا ہے ‘نہ جانے اب بھی ان کی چائے میں خوشبو ہوتی ہے کہ نہیں‘ کیا ان کے کتے اب بھی موجود ہونگے اور وہ خوبصورت سیڑھیاں اورخفیہ راستہ اب بھی موجود ہے یا اس کو بھی کاٹ دیا گیا ہے تاکہ پکا فرش بنایا جا سکے یہی سوچتے سوچتے منال بھی آگیا یہاں تک ایسا حال تھا کہ کسی مویشی میلے کا گمان ہوتا تھا ہم لوگ گھبرا کر پہر سہادہ چلے گئے ‘میں سوچ رہی تھی کہ یہاں ایک چھوٹی سی پکوڑوں کی دکان ہوتی تھی ‘ایک ٹھنڈی اور ہوادار گلی میں بیٹھ کر میں نے کبھی ڈھیروں پکوڑے کھائے تھے لیکن اب یہاں یکی دکانیں بن چکی ہیں ‘پکوڑوں کا کام ایک جدید ترین ریستوران نے لے لیا ہے‘ پکوڑے والا اپنی چھوٹی سی دکان کے ساتھ موجود ہے لیکن ریستوران کے ٹیرس پربیٹھنے کیلئے لازمی ہے کہ اسی کی چائے اور پکوڑے خریدے جائیں‘میں نے تصویریں بنانے کیلئے ٹیرس سے نیچے جھانکا ‘پوری پہاڑی ان ریپرز اور لفافوں کے گند اور کوڑے سے بھری ہوئی تھی جو بہت پڑھے لکھے مہذب اور نئے ماڈل کی گاڑیوں میں یہاں تشرف لانے والے لوگوں نے پھینکے تھے‘ ہم نے بھی129روپے کی چھوٹی سی پکوڑوں کی پلیٹ29روپے کی ایک روٹی اور50روپے کا ایک کپ چائے منگوا کر پی لیا‘ ایک پہاڑی سی بلی کرسیوں کے نیچے بکھرے ہوئے کوڑے سے اپنی پسندیدہ کھانوں کو تلاش کرتی پھر رہی تھی‘ ہم نے بھی اس کو پیار بھری نظروں سے دیکھا‘ شاید پڑھے لکھے لوگ اپنا کوڑا ان بلی کتوں کیلئے زمین پر بکھرا دیتے ہیں تاکہ یہ بھوکے نہ رہیں‘ اسلام آباد ستاروں بھری روشنیوں سے جل اٹھا تھا اور میں صدر ایوب خان کے80 ہزار لوگوں کیلئے بنائے گئے اس خوبصورت دارالخلافے کی15لاکھ بے ہنگم آبادی کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنے آپ کو خواہ مخواہ ہلکان کر رہی تھی۔
اشتہار
مقبول خبریں
اسپین کا خوبصورت شہر سویا
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محلہ جوگن شاہ سے کوپن ہیگن تک کی لائبریری
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
درختوں کا کرب
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
ہالینڈ کی ملکہ اور ان کی پاکستانی دوست
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو