ٹریفک حادثات سے ہلاکتیں

آپ کے سامنے سے روزانہ ہزاروں لوگ موٹر سائیکلوں پر بغیر ہیلمٹ پہنے اور بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑیاں چلاتے گزرتے ہوں گے‘اسی طرح انہیں برق رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے بھی آپ دیکھتے ہوں گے‘ پر حیرت ہے کہ وہ ایسا کرتے ٹریفک پولیس کو نظر نہیں آتے‘ اس قسم کے ٹریفک جرائم میں ملوث لوگ کیسے قانون کی زد سے بچ نکلتے ہیں اس سوال کا درست جواب یہ ہے کہ کسی کی سفارش ان کے ہاں اتنی ہے‘ سیاسی اثرورسوخ کے بل بوتے پر ان کو کبھی سزا نہیں ملتی اور یہ ہی غالباً سب سے بڑی وجہ ہے کہ ٹریفک حادثات میں روزانہ درجنوں افراد کچلے جارہے ہیں یا زندگی بھر کیلئے معذور ہو رہے ہیں‘ کہا جاتا ہے کہ وطن عزیز میں ہر سال امراض قلب یا کینسر سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے کہ ٹریفک کے حادثات سے لقمہ اجل ہوتے ہیں اس ضمن میں والدین پر بھی بڑی ذمہ داری عائدہوتی ہے وہ اپنے بچوں کو آخر کیوں بغیر ڈرائیونگ لائسنس اور بغیر ہیلمٹ پہنے سڑک پر گاڑیاں چلانے چھوڑتے ہیں‘ ایک منچلے کی اس تجویز میں بڑاوزن ہے کہ متعلقہ قانون میں ترمیم کر کے بغیر ہیلمٹ اور بغیر لائسنس موٹر سائیکل اور کار چلانے والوں کو گرفتار کرنے کے بجائے ان کے والدین یا ان کے گھر کے سربراہان کو گرفتار کر کے پابند سلاسلِ کرناچاہیے اور ان کے موثر سائیکلوں اور کاروں کو بھی بحق سرکار ضبط کیا جائے‘ شاید اس سے ان کے والدین کے دلوں میں قانون کاخوف پیدا ہو جائے‘نجی ٹرانسپورٹ کی بسوں کے مالکان بھی لمبے روٹس پر چلنے والی اپنی بسوں کے ڈرائیوروں کو مناسب آرام کا موقع فراہم نہیں کرتے اس لئے تو لامحالہ سڑکوں پر وہ ٹریفک کے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں‘ اس قسم کے واقعات کے ذکر کا مقصد یہ تھا کہ سڑکوں پر بسوں کے سفر کو محفوظ بنانے کے واسطے متعلقہ سرکاری ادارے کو وسیع پیمانے پر متعلقہ ٹریفک قوانین میں نہ صرف ترامیم کی ضرورت ہے بلکہ ٹریفک پولیس کی کارکرد گی کو بھی موثر اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے ورنہ ھماری سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کے ہاتھوں خون کی ہولی کبھی بھی ختم ہو نے کا نام نہیں لے گی۔ سپر پاورز خصوصاً امریکہ کی استعماری سیاست اور آئی ایم ایف کے چنگل سے اگر ہم نے جان چھڑانی ہے تو ہمارے سامنے چین کی مثال موجود ہے چین کی قیادت نے جس قسم کی پالیسی اپنا کر اپنے آپ کو سپر پاور پالیٹکس super power politics  سے جدا رکھ کر آپ کے ملک کو ترقی کی راہ پر پروان چڑھایا اور بیرونی محتاجی ختم کی‘ پر اس کے واسطے ہمیں ماؤزے تنگ‘ چو این لائی اور ڈینگ جیسے رہنما درکار ہیں جو بد قسمتی سے ہم میں سر دست ناپید ہیں‘جب تک وطن عزیز میں ان جیسے وژن vision  رکھنے والی دوراندیش قسم کی لیڈرشپ پیدا نہیں ہوگی‘اس ملک کے عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری پیدا ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی‘اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز میں‘ ممنوعہ بور کے اسلحہ کے پھیلاؤ نے امن عامہ کا ستیاناس کر دیا ہے گزشتہ بیس برسوں میں کسی بھی حکمران نے ممنوعہ بور کے اسلحہ کی نمائش اور استعمال پر پابندی لگانے کی کوشش نہیں کی لہٰذ اب جو سپریم کورٹ نے اس مسئلے کانوٹس لیا ہے وہ بروقت ہے اور امید ہے کہ عدالت عظمیٰ کی مداخلت سے یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔اگلے ماہ الیکشن کے بعد جو حکومت بھی بنے گی‘ اسے رواں مالی سال کا بجٹ بنانے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اگر اس نے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کیا تو روز اول سے ہی وہ سیاسی مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس ملک کے عام آدمی کے لئے یہ خبر تشویشناک ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ بجلی ٹیرف سیلز و انکم ٹیکس اور دیگر محصولات میں اضافہ کیا جائے گا۔