ملنڈو ائرلائنۃڈ132کی فلائٹ

ہم اس وقت ایک خوبصورت سیر کیلئے علامہ اقبال ائرپورٹ کی طرف روانہ ہیں زندگی کے ہر سفر میں تجربات اور خیالات ساتھ ہی ساتھ چلتے رہتے ہیں‘ رات کا اندھیرا لاہور کی سڑکوں کو اور بھی تاریک بنا رہا ہے‘ شاید ہم لاہور کے پرانے بازاروں سے گزر رہے ہیں جہاں روشنی یا سٹریٹ لائٹس کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے‘ مجھے قطار در قطار خراد کی دکانیں نظر آرہی ہیں ‘جہاں کاری گر ابھی تک اپنے مرمت کے کاموں کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘ میرا خیال تھا ہم آدھ گھنٹے میں علامہ اقبال ائرپورٹ پہنچ جائیں گے ‘لیکن یہ راستہ طویل تر ہی ہوگیا ہے کم از کم بھی بس کو ائرپورٹ پہنچتے پہنچتے دو گھنٹے لگ گئے‘ جہاز نے رات نو بج کر دس منٹ پر روانہ ہونا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ائرپورٹ پہنچتے ہی بہت تیزی کے ساتھ بس میں سے سب سامان نکالا گیا اور انتہائی سرعت کے ساتھ گروپ اس کاﺅنٹر کی طرف روانہ ہوا جہاں سب کے پاسپورٹ اور ٹکٹ چیک ہونا ہیں‘ لاہور ائرپورٹ اسلام آباد ائرپورٹ (پرانا) کی نسبت بہت وسیع و عریض ہے اس کی عمارت باہر سے بھی بہت شاندار دکھتی ہے‘ میری زندگی کا یہ پہلا سفر ہے جو میں علامہ اقبال ائرپورٹ سے کرنے جارہی ہوں اس سے پہلے میں نے ہمیشہ بیرون ممالک کے لئے اسلام آباد کا بے نظیر ائرپورٹ ہی استعمال کیا ہے‘ اور آج کل فتح جنگ میں انتہائی جدید بنیادوں پر نیا ائرپورٹ بن چکا ہے‘ میرے ہاتھ میں آج کے کچھ اخبارات اور میری کتاب” اشک“ ہے جو اسی عجلت میں کسی سامان کی ٹرالی ہی میں مجھ سے رہ گئی اور بہت افسوس ہوا‘ ائرپورٹ کاﺅنٹر پر بیٹھا ہوا سٹاف کافی چڑچڑا ہے ‘ہر ایک مسافر کو انہوں نے مشکل وقت دیا ‘ہر چیز میں خرابی نکالی اور آخر میں وہی خرابی خود بہ خود ٹھیک بھی ہوتی گئی‘ سارا گروپ الگ الگ حصوں میں بٹ گیا ہے ‘ہرکوئی اپنے اپنے طور پر اپنے آپ کو کلیئر کروا کے بورڈنگ کارڈ لے رہا ہے ‘عجب افراتفری کا عالم ہے‘ خدیجہ نسرین اور منزہ جاوید کو میں جانتی ہوں ‘خدیجہ نے بھی پوری سروس ریڈیو پاکستان کے شعبہ نیوز میں گزاری اور منزہ جاوید پاکستان ٹیلی ویژن سے بحیثیت پرڈیوسر کام کرتی ہیں ‘کئی سال پہلے ایبٹ آباد میں منعقد ہونے والی براڈ کاسٹنگ کی ایک کانفرنس میں ہم نے اکٹھے شرکت کی تھی ‘جب کہ ہمارا کمرہ بھی ایک ہی تھا۔ ائر پورٹ کے پہلے کاﺅنٹر سے بورڈنگ کارڈ لے کر اب ایک دوسرے کاﺅنٹر پر اپنے پاسپورٹ پر مہر لگوانی ہے اس کے بعد ایک اور کاﺅنٹر پر سوال جواب کی صورت میں دوبارہ ہم سے معلومات لی گئیں‘ ایک اور کاﺅنٹر پر جسمانی اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے سامان کی تلاشی لی گئی ‘اس طرح ہم کافی سخت مراحل طے کرکے ڈیپارچر لاﺅنج میں پہنچ گئے‘ رعنا تقی ہماری سوسائٹی کی جنرل سیکرٹری ہیں اور اسلام آباد کے ایک مشہور کالج کی پرنسپل ہیں‘ نازک اقدام‘ خوش مزاج اور مہذب خاتون ہیں ‘جب میں ڈیپارچر لاﺅنج پہنچی تو وہ اپنے گروپ کے ساتھ چائے پی رہی ہیں ‘میرا اپنا بھی دل چائے پینے کو بہت چاہ رہا ہے لیکن وقت بہت تھوڑا ہے اور ہم نے جہاز میں بیٹھنا ہے ‘جس جہاز میں ہم نے سفر کرنا ہے یہ ملائشین ائرلائن کا ہی جہاز ہے جو ملنڈو(Malindo) ائرلائن کہلاتی ہے ‘جہاز میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ بہت ہی چھوٹا سا جہاز ہے ‘سب سے پہلے کچھ کشادہ سیٹیں ہیں جو فرسٹ کلاس کی ہیں اور باقی تمام عام سی سیٹیں ہیں صرف دو قطاریں ہیں اور ہر قطار میں دو دو سیٹیں ہیں جو مسافروں کے بیٹھنے کیلئے ہیں ۔ملائشیا جانے کیلئے23 کلو گرام تک کا وزن لے جانے کی اجازت ہے یا پھر ہمیں گروپ منیجر نے23 کلوگرام تک وزن کے بارے میں ہدایات دی ہوئی ہیں ‘ورنہ یورپ کیلئے 40 کلو گرام تک سامان لے جانے کی اجازت ہوتی ہے جو دو باکسز کی صورت میں ہوتا ہے۔