کمرشل بینکوں کی جانب سے حکومت کو قرضوں کی ریکارڈ فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔
آپٹیمس کیپیٹل مینجمنٹ ( او سی ایم ) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کمرشل بینکوں نے جنوری میں جمع ہونے والی رقوم کا 93 فیصد حکومت کو بلند شرح سود پر قرض کی صورت میں فراہم کر دیا ہے، جبکہ بلند شرح سود کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر کو قرض فراہمی کا سلسلہ جمود کا شکار ہے اور اس میں مسلسل کمی جا رجحان دیکھا جارہا ہے۔
ادھر جنوری میں بینکوں کے ڈپازٹس میں بھی کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے، اور جنوری میں ڈپازٹس دسمبر کے مقابلے میں کم ہو کر 27.54 ہزار ارب روپے کی سطح پر آگئے ہیں جو کہ دسمبر میں 27.84 ہزار ارب روپے تھے۔
اس حوالے سے عارف حبیب لمیٹڈ کی معاشی ماہر ثناء توفیق نے کہا کہ جنوری میں بڑے ڈپازیٹرز کی جانب سے بینکوں سے رقوم نکلوائی گئی ہیں، جو انھوں نے بینکوں کی درخواست پر دسمبر میں جمع کرائی تھی۔
انھوں نے کہا کہ لمبے عرصے سے بیرونی قرضوں کی کم فراہمی کی وجہ سے حکومت کا کمرشل بینکوں پر انحصار بڑھا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق بینکوں نے ٹی بلز، پاکستانی انویسٹمنٹ بانڈز اور سکوک کی شکل میں حکومتی قرضوں میں مجموعی ڈپازٹس 27.54 ہزار ارب روپے میں سے 25.60 ہزار ارب روپے انویسٹ کردیے ہیں، اس طرح بینکوں کا انویسٹمنٹ ٹو ڈپازٹ ریشو 93 فیصد کی بلند ترین شرح پر پہنچ گیا ہے، جو کہ گزشتہ سال جنوری میں 85 فیصد اور دسمبر 2023 میں 91 فیصد تھا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ حکومت کے کمرشل بینکوں پر بڑھتے ہوئے انحصار کی بنیادی وجہ مالیاتی خسارہ ہے، جبکہ 22 فیصد کی بلند شرح سود کی وجہ سے امکان ہے کہ رواں مالی سال کے دوران حکومتی قرضے 8 ہزار ارب روپے کی سطح سے بڑھ جائیں گے۔
واضح رہے کہ شرح سود میں ایک پرسنٹیج پوائنٹ اضافہ سودی ادائیگیوں میں سالانہ 200 سے 250 ارب روپے تک اضافے کا سبب بنتا ہے۔