سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہ ہونے والوں کی جائیداد سیل کی جاسکتی ہے، ایف بی آر حکام

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) حکام نے کہا ہے کہ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہ ہونے والوں کے بینک اکاؤنٹس بند جبکہ کاروبار اور جائیداد سیل کی جاسکتی ہے۔ 

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے شرکت کی اور کمیٹی ممبران کو بریفنگ دی۔ 

اس دوران ایف بی آر حکام نے بتایا کہ جو بندہ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہ ہو اس کے بینک اکاؤنٹس بند جبکہ کاروبار اور جائیداد کو سیل کیا جاسکے گا۔

اس پر سینیٹر محسن عزیز میں بھی غیر رجسٹرڈ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا حامی ہوں، لوگ اس کا توڑ کر لیتے ہیں۔

چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ہماری 400 ٹیکس آفس ہیں مگر ہماری آڈٹ کی صلاحیت کم ہے۔ ہمارے پاس 350 آڈیٹرز ہیں مگر ہم مزید 1600 آڈیٹرز رکھیں گے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ ہم تین سال کیلئے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس رکھیں گے اور دو لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا۔ ہم یہ آڈیٹرز مستقل طور پر نہیں رکھیں گے۔ ہم اسسمنٹ افسران کے ساتھ آڈیٹرز رکھیں گے۔

سینیٹر شبلی فراز نے سوال کیا کہ اگر یہ باقی کاموں کیلئے الگورتھم استعمال کر رہے ہیں تو اس کام کےلیے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟

سینیٹر محسن عزیز بولے کہ آپ بہت بڑا پنڈورا بکس کھول رہے ہیں جس کا آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے۔ کاروبار پہلے ہی سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، ایکسائز ٹیکس، اسپیشل آڈٹ کروا رہے ہیں اور کتنے آڈٹ کریں گے؟

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ فیکٹریز کو ان آڈیٹرز کو ڈیل کرنے کیلئے علیحدہ یونٹ قائم کرنا پڑیں گے۔ اس پر محسن عزیز کا کہنا تھا کہ میرا اس شق پر اختلافی نوٹ شامل کر لیں۔

چیئرمین ایف بی ار کا کہنا تھا کہ اس تجویز کو چلنے دیں اگر مثبت نتائج نہ آئے تو کچھ عرصہ بعد بند کردیں گے۔ 

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اس کمیٹی میں صرف پی ٹی آئی کے 2 سینیٹر موجود ہیں، باقی سیاسی جماعتوں کیلئے یہ اہم نہیں ہے۔ ٹیکس ترمیمی بل 2024 بہت اہم ہے۔

شبلی فراز کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس میں سیاسی پارٹیوں کے سینیٹرز کی شرکت بہت ضروری ہے، ورنہ یہ سب کچھ بےکار ہے، میں جارہا ہوں۔ 

سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس ختم کردیا گیا۔