پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر اور سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق سینئر نائب صدرا ورممبر ایگزیکٹیو کمیٹی ضیاء الحق سرحدی نے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو دو طرفہ باہمی تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ، امپورٹ ایکسپورٹ کے علاوہ افغانستان سے ٹرانزٹ ریورس کارگو میں خطرناک حد تک کمی میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور حالیہ ریگولیٹری اور اقتصادی رکاوٹوں سے خیبر پختونخوا کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ دیگر بیرون ملک ایکسپورٹ کارگو پر 2 فیصد انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کے نفاذ سے پاکستان کی تجارتی مسابقت اور علاقائی اقتصادی استحکام کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ سال پہلے پاک افغان باہمی تجارت کا حجم 2.5بلین ڈالرز تھا جو کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 70کروڑ ڈالر تک رہ گیا ہے۔ اس کمی میں کافی عوامل شامل ہیں ۔جس میں پاک افغان طورخم بارڈر کا بند ہونا، پاک افغان شاہراہ کا بند ہونا،ٹیمپراری ایڈمیشن ڈاکومنٹس (TAD) کا مسئلہ اور گزشتہ سال 18اکتوبر 2023ء میں منسٹری آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرف سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر کچھ پا بندیاں جس میں 100فیصد بنک گارنٹی جو کہ پہلے انشورنس گارنٹی ہوتی تھی، 14آئٹمز کو نیگیٹو لسٹ میں ڈال دیا گیا،10فیصد پراسیسنگ فیس کے علاوہ بھی پابندیاں عائد کی گئیں اور کراچی پورٹ پر 300سے زائد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز کافی عرصہ تک کھڑے رہے جن پر لاکھوں ڈالرز روزانہ کے حساب سے ڈیمرج، ڈی ٹینشن چارج لگایا گیا ۔اس ظالمانہ اقدام سے 70فیصد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز کراچی پورٹ کی بجائے چابہار اور بندر عباس(ایران)منتقل ہو گئے جس کی وجہ سے ہزاروں کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس، بارڈر ایجنٹس، شپنگ ایجنٹس،ٹرانسپورٹرز اور مزدور ودیگر افراد بے روزگار ہو گئے۔
ضیاء الحق سرحدی جو کہ فرنٹیئر کسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کے صدربھی ہیںنے مزید کہا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کارگوپر 2 فیصدسیس لگنے سے ہزاروں کنٹینرز جو کہ کراچی پورٹ پر طورخم بارڈر کے راستے افغانستان جاتے تھے وہ کراچی سے چمن بارڈر کے ذریعے افغانستان جارہے ہیں کیونکہ صوبہ بلوچستان میں خیبر پختونخوا کے صوبے کی طرح 2فیصد سیس نہیں ہے جس کی وجہ سے خیبر پختونخواصوبے میں کافی بے روزگاری ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوامیں سیس کو ختم کیا جائے تاکہ صوبہ خیبر پختونخواکے کاروباری لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو وفاقی حکومت ایکسپورٹ کے فروغ کے لئے طرح طرح کی سہولیات دے رہی ہے جیسا کہ ڈیوٹی ڈرابیگ ،ریفنڈ، فریٹ کی مد میں سبسڈی وغیرہ اور دوسری طرف خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت ایکسپورٹ پر 2فیصد سیس وصول کر رہی ہے جس جی وجہ سے باچا خان انٹرنیشنل ایئر پورٹ پشاور ، اضاخیل ڈرائی پورٹ نوشہرہ، طورخم کسٹم سٹیشن،غلام خان، خرلاچی بارڈرز اور دیگر کسٹم سٹیشن سے کروڑوں روپے کے ایکسپورٹ کارگو گڈز دوسرے صوبوں سے جانے شروع ہو گئے ہیں اور اس سے پاک افغان باہمی تجارت کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے بھی جو ایکسپورٹ جا رہی تھی وہ بھی کافی حد تک متاثرہو رہی ہے۔
ضیاء الحق سرحدی نے خیبرپختونخوا صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی برآمدی صلاحیت اور علاقائی تجارتی قیادت کی رہ میں حائل رکاوٹوں کو فوری دور کرنے کے لئے جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد کرے اس کے لئے نہ صرف انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ ایسی مستقل پالیسیاں بھی قائم کی جائیں جو پورے پاکستان میں شفاف پائیدار طریقوں سے چل سکیں۔