امیگرنٹس کے آنے سے گو کہ کینیڈا میں معیار زندگی پر بڑا اثر پڑا ہے لیکن قانون کی حکمرانی ایسی ہے کہ ہر کام قانون کے دائرے میں ہو رہا ہے‘ گزشتہ 24/22 سال میں کینیڈا میں امیگریشن کی رفتار حد درجہ زیادہ رہی ہے‘ 24 سال پہلے بہت کم دیسی لوگ نظر آتے تھے‘ بہت کم حلال کھانوں کی دکانیں تھیں اور مسجدیں بھی اکا دکا اور بہت دور دور ہوتی تھیں‘ یہ اس ملک کا بڑا پن ہے کہ کبھی بھی کسی مذہب کی عبادت گاہ بنانے پر اعتراض نہیں کرتے‘ مساجد یہاں اتنی بڑی ہیں کہ بہت سے مقاصد کیلئے استعمال ہوتی ہیں‘ نمازیں پڑھوائی جاتی ہیں‘ درس و تدریس کا کام یہاں ہوتا ہے‘ جنازے پڑھائے جاتے ہیں‘ دنیا کے مشہور ترین علمائے دین یہاں نوجوانوں کو لیکچرز دینے کیلئے آتے ہیں‘ تراویح اور افطاری کے وسیع ترین پروگرام ہوتے ہیں۔ اسی طرح سکھ کمیونٹی کی عبادت گاہ گوردوارے اور ہندو مذہب کے مندر بھی بے شمار ہیں۔ کینیڈا بہت سے مذاہب اور قومیتوں کا مجموعہ ہے‘ ہمسایوں میں ہر مذہب کے لوگ موجود ہیں‘ سکولوں میں تمام بچے اکٹھے پڑھتے ہیں ان میں چین‘ افریقہ‘ سری لنکا‘ بھارت‘ عرب‘ ترک‘ انگریز‘ فلپائن ہر ملک کا بچہ ایک ہی کلاس میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہا ہے‘ کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوتا‘ کبھی اساتذہ کسی بچے سے مذہب کا نہیں پوچھتے‘ ہر کمیونٹی کو اپنی اپنی روایات اور ثقافت کے مطابق رہنے کو اچھا سمجھا جاتا ہے‘ بعض مواقعوں پر تو بڑی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ میں اس وقت حیران ہوئی جب میری پوتی سکول کا اپنا ایک پراجیکٹ پورا کرنے کیلئے گھر لائی اس میں بہت سی چوائسز تھیں‘ یہ سوشل سٹڈیز کا پراجیکٹ تھا‘ سالگرہ‘ پارٹی‘ عید پارٹی‘ دیوالی‘ کرسمس اور تقریباً ہر مذہب کے بارے میں تحریر تھا‘ میں نے اپنی طرف سے اپنی پوتی کو سالگرہ پارٹی پر اچھی طرح سمجھا کر سکول بھیجا کہ اس دن کو کیسے منایا جائے گا‘ کون سے دوستوں کو دعوت دی جائے گی‘ کون سے لباس کو منتخب کیا جائے گا‘ کھانے میں کیا کیا ہو گا‘ سجاوٹ کیسے کی جائے گی وغیرہ وغیرہ‘ لیکن کچھ دنوں بعد اس نے
مجھے حیران کر دیا کہ میری ٹیچر نے کہا ہے کہ تم عید کے دن پر پراجیکٹ بناﺅ گی‘ مجھے یہ مشکل اس لئے لگا کہ مذہبی تہوار کے حوالے سے سب کو سمجھانا یہاں مشکل ہوتا ہے لیکن جب ایک بڑے چارٹ پر میں نے پراجیکٹ بنا ہوا دیکھا تو مجھے بھی حیران کر گیا‘ اس میں مسجد بنی ہوئی تھی‘ لوگ آپس میں گلے مل رہے تھے‘ بزرگ بچوں کو کرنسی نوٹوں کی شکل میں عیدی دے رہے تھے اور کھانے میں وہ سب کچھ لکھا ہوا تھا اور میز پر موجود تھا جو واقعی عید کے دن ہمارے گھروں میں پکایا جاتا ہے۔ ایسی آزادی کی امید ہم صرف کینیڈا میں ہی کر سکتے ہیں‘ شاید امریکہ بھی اس لحاظ سے بہت آزاد ہے کہ وہ کسی کے مذہب کے بارے میں اپنی کوئی رائے نہیں دیتا‘ لوگ جس حال میں ہیں بس اپنا اپنا کام کر رہے ہیں‘ ان ممالک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور ان کے تھنک ٹینک کو یہ معلوم ہے کہ ایک دن وہ آئے گا جب ایک ایسی نسل کینیڈا میں وجود میں آئے گی جو صرف کینیڈین ذہن و دل کی مالک ہو گی‘ جس طرح مارٹن لوتھر کنگ نے ایک تقریر کی تھی اور اس کی تقریر تاریخ میں بڑی مشہور ہوئی تھی‘ اس نے کہا تھا کہ میں خواب دیکھتا ہوں کہ ایک دن ایسا آئے گا جب امریکہ میں کوئی کالا یا کوئی گورا نہیں ہو گا‘ ہمارے بچے مل جل کر کھیلیں گے ‘ان کے سکول ایک ہی ہوں گے‘ ان کے اساتذہ بھی ایک ہوں گے‘ وہ مل جل کر رہیں گے‘ وہ آپس میں شادیاں کریں گے‘ ایک جیسے گھروں میں رہیں گے اور پھر وہ دن کئی سالوں بعد آج کی نسلیں دیکھ رہی ہیں کہ کالے اور گورے ایک ساتھ رہ رہے ہیں‘ ان کے علاقے ایک ہیں‘ وہ آپس میں دوست ہیں‘ اکٹھے رہتے ہیں‘ ایک جیسے سکولوں میں پڑھتے ہیں اور یہ سب صرف 100/80 سال پہلے کوئی گورا یا کوئی کالا سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘ ایک قانون ہے جو سب سے بالا ہے‘ کوئی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کو توڑ کر آگے بڑھ نہیں سکتا چاہے وہ کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو‘ چاہے وہ غریب مسکین کیوں نہ ہو۔ قانون کی کتاب میں جو لکھ دیا گیا ہے اس کے مطابق اس ملک نے چلنا ہے اور اس سے کوئی مبرا نہیں ہے‘ ان ممالک کی ترقی کا راز بس اسی میں مضمر ہے‘ اسلئے ہر شخص قانون کا احترام کرتا ہے‘ جس ادارے میں کام کرتا ہے وہاں کے اصول اپناتا ہے اور اپنی زندگی کو سکون کے ساتھ گزارتا ہے۔