علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کے مشہورہا سٹل ممتاز ہاﺅس میں دو پشوری طالب رہتے تھے کمرے میں ان کا تیسرا ساتھی یعنی روم میٹ پٹیا لہ سے تھا، پشوری طلباءمیں ایک کا نا م عبد الرحمن تھا دوسرے کا نا م غلا م مصطفی تھا، عبد الرحمن کشمیر سے تھا‘ غلا م مصطفی چترال سے تھا، پٹیا لہ والے ساتھی کا نا م فضل امین تھا، عبد الرحمن کا باپ غلام صمدانی مشہور تاجر تھا، غلا م مصطفیٰ کا باپ علا مہ محمد غفران ریاست چترال میں ریا ستی حکمران کے ہاں میر منشی کے منصب پر فائز تھا، فضل امین کا باپ فضل متین پٹیا لہ میں جج تھا، 1907ءمیں تینوں طلبا انٹر میڈیٹ کی سطح کے طالب علم تھے علی گڑھ کا ما حول ایسا تھا کہ اس ما حول میں تعلیمی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی، سما جی اور سیا سی سر گرمیاں بھی ہوا کر تی تھیں طلباءاخبارات پڑھتے تھے اور حالات حا ضرہ پر دل کھول کر بحث کیا کر تے تھے اکثر اوقات مسلم دنیا پر نو آبادیا تی دور کے اثرات اور بر طانوی سامراج کی مسلم دشمن پا لیسیوں کے تذ کرے ہوتے تھے‘ مو لانا حسرت مو ہا نی علی گڑھ سے وابستہ تھے اور کیمپس ہی میں مقیم تھے طلبا کچھ لکھتے تو ان کی
اصلا ح کر تے، حو صلہ افزائی بھی کر تے اکثر اوقات طلباءکی ٹو ٹی پھو ٹی تحریروں کو اپنے مجلہ اردو ئے معلیٰ میں شا ئع بھی کر تے مگر ساتھ ساتھ طلبا کو نصیحت کر تے کہ امتحا نات کی تیا ری پر توجہ دو، اچھے نمبر لینے اور اچھے در جے میں امتیاز کے ساتھ پا س ہونے کی کو شش کرو اسی اردوئے معلی میں مضمون چھپنے پر بر طانوی سرکار نے غلا م مصطفی کو یو نیور سٹی سے خارج کر وادیا، واقعہ دلچسپ بھی ہے‘ دل خراش بھی ہے ۔یہ 1907 ءکے ستمبر کی بات ہے ایک دن طلبا ءکے درمیان مسلم دنیا پر نو آبادیا تی تسلط کے منفی اثرات کی بحث چھڑ گئی اس بحث کے چید ہ نکا ت میں مصر کے اندر حکومت کی تعلیمی پا لیسی کے نقصانات کا جا ئزہ بھی شامل تھا‘ اس مو ضوع پر غلا م مصطفی نے ایک مضمون لکھا عنوان تھا مصر میں انگریزوں کی تعلیمی پا لیسی مضمون کو دو نوں ساتھیوں نے پسند کیا‘ عبد الرحمن کا حسرت مو ہا نی کے ہاں آنا جا نا بہت زیا دہ تھا‘ اس نے مضمون حسرت مو ہانی کو دیا ساتھ تا کید کی کہ لکھنے والے کا نا م اور پتہ نہ دیا جا ئے، اس دوران انٹر میڈیٹ کے امتحا نات کی تیا ری ہو تی رہی ‘جب امتحا نا ت ختم ہو ئے تو اپریل1908ءمیں اردوئے معلی شائع ہوا‘ غلا م مصطفی کا مضمون ایک گمنا م طالب علم کے نا م سے منظر عام پر آیا‘ انگریزوں نے حسرت مو ہا نی کو جیل میں ڈالا ان کا پریس ضبط کیا، اردوئے معلی بند ہوا ‘گمنا م طالب علم کی تلا ش کا کا م پو لیس کی سپیشل برانچ کو سونپ دیا گیا، پو لیس نے تفتیش کا دائرہ آگے بڑھا تے ہوئے محمد امین، عبد الرحمن اور غلا م مصطفی کو شریک ملزم ٹھہرا یا لیکن حسرت مو ہا نی نے سارا جر م اپنے سر لے لیا اور طلباءکو پو لیس کی
تفتیش سے بچا لیا تا ہم انگریز کمشنر نے علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کی انتظا میہ پر دباﺅ ڈال کر تینوں کو تین تین سال کےلئے یونیورسٹی سے خا رج کر وادیا۔، 1911 ءمیں محمد امین اور عبد الرحمن نے تعلیم مکمل کرنے کے لئے داخلہ لیا، غلام مصطفی کا ذکر ریکارڈ میں نہیں، ان کے مضمون کی تین باتیں بہت خطر نا ک تھیں پہلی بات یہ تھی کہ انگریز مصر کی نئی نسل کو آباءو اجداد کی ثقا فت اور روا یت سے بیگانہ کرنا چاہتا ہے دوسری بات یہ تھی کہ انگریز عربی زبان کی جگہ انگریزی کو رواج دے کر غلا ما نہ ذہنیت کی آبیا ری کر رہا ہے، تیسری بات یہ تھی کہ انگریز مصر کی آزادی اور خو دمختاری کے خلاف تعلیم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے‘ اس کا دیر پا اثر ہو گا‘ غلام مصطفی کو ممتاز ہا ﺅس علی گڑھ میں آغا جی کے نا م سے یا د کیا جا تا تھا، انہوں نے چترال میں زند گی بسر کی‘ 1924ءمیں سفر حج کے دوران مکہ معظمہ میں وفات پائی اور جنت المعلی میں دفن ہوئے‘ عبدالرحمن تر کی گئے جہاں انہوں نے 1929ءمیں جام شہا دت نو ش کیا، فضل امین نے پٹیا لہ میں 1930ءمیں داعی اجل کو لبیک کہا۔