موسمیاتی تغیر و تبدل نے دنیا کے موسموں کو کچھ اس طرح سے تبدیل کیا ہے کہ نہ صرف انسان بلکہ حیوانات بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ کینیڈا تو موسموں کے لحاظ سے بہت شدید ہے‘ سخت ترین برف تقریباً تمام دس صوبوں اور تین ریاستوں میں پڑتی ہے‘ پھر جب بہار کا موسم آتا ہے تو کچھ صوبے ہی اس موسم سے مستفید ہوتے ہیں‘ باقی صوبوں میں ہنوز برف اور سردی کا راج ہوتا ہے۔ گرمی کے مہینوں میں صرف دو مہینے ہی آتے ہیں جن میں شدید گرمی پڑتی ہے لیکن تب بھی کچھ صوبے ایسے ہیں جہاں ہلکی سردی ہوتی ہے لیکن موسموں کے تغیر نے یہاں کے موسموں کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ اب مارچ اپریل میں جب بہار کا موسم عروج پر ہوتا تھا‘ ایسٹر پھولوں کے جھرمٹ میں منایا جاتا تھا‘ ایسی برف باری ہو رہی ہے کہ موسم منفی 12 تک جا پہنچا ہے‘ جانور بھی حیران ہیں کہ یہ تو ان کے نکلنے دوڑنے کے دن ہیں‘ اڑنے اور گھونسلے بنانے کے دن ہیں پھر آسمان سفید اولے کیوں برسا رہا ہے‘ روئی کے گالوں جیسی برف جو ہاتھ میں آئے تو پانی بن جائے اور زمین میں گرتے گرتے چھوٹے چھوٹے پہاڑی نما برف کے ٹیلے بنتے جائیں۔ کینیڈا باقی مغربی ممالک سمیت ان ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں مارچ کی دوسری اتوار اور نومبر کی پہلی اتوار پر وقت تبدیل کر لیا جاتا ہے‘ اس تبدیلی کا تعلق بھی موسموں سے بنتا ہے‘ مارچ کی دوسری اتوار پر وقت ایک گھنٹہ آگے کر دیا جاتا ہے جس کا آغاز رات 2 بجے ہوتا ہے‘ اسی طرح نومبر کی پہلی اتوار کو ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا جاتا ہے۔ دو دہائیوں قبل جب سمارٹ فون کا کوئی وجود نہیں تھا تو ریڈیو اور ٹی وی اعلانات کر کر کے وقت کے بارے میں معلومات دیتے تھے اور لوگ اپنی گھڑیاں آگے پیچھے کر دیتے تھے لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی بدولت وقت خود بخود آپ کے ٹیلی فون پر تبدیل ہو جاتا ہے اور ہاتھ کی گھڑیاں اگر سمارٹ ہیں تو وہ بھی وقت کو خود بخود تبدیل کر لیتی ہیں۔ بینجمن فرینکلن دنیا کے بڑے سائنسدان تھے اور ساتھ ہی ساتھ وہ صحافی بھی تھے‘ اخبار جرنل میں کام کیا کرتے تھے ایک دفعہ انہوں نے حکومت وقت کو بطور مذاق یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ بجلی اور توانائی کی بچت کرنا چاہتی ہے تو اپنے شہریوں کو جلدی سلا دے اور صبح
سویرے جگا دے اس طرح شمسی توانائی اور روشنی زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکتی ہے لیکن بینجمن فرینکلن کا یہ نظریہ نیوزی لینڈ کے ایک سائنسدان جارج ہڈسن اور برطانیہ کے ایک بلڈر ولیم بٹ نے باقاعدہ طور پر 1895ءمیں پیش کیا لیکن حکومتیں اور عوام وقت کو اپنے طور پر آگے پیچھے کرنے میں دقت محسوس کرتے تھے اور اسی بحث و تمحیص میں 21 سال مزید بیت گئے لیکن آخر کار برطانوی پارلیمنٹ نے 1900ءمیں یہ قانون پاس کر لیا اور یہ نظریہ باقاعدہ طور پر لاگو ہو گیا اور اس طرح گرمیوں میں سورج کی روشنی کو صبح جلدی استعمال کرنے اور سردیوں میں دیر تک استعمال کرنے کا قانون بنا دیا گیا لیکن اس تصور یا
آئیڈیا کے اصل خالق بینجمن فرینکلن تھے‘ وقت کو آگے اور پیچھے کریں یا نہ کریں ان سب سے بے نیاز کینیڈا کے ایک چھوٹے صوبے سینی ٹویہ نے اس نظریئے کو اپنا لیا‘ اس طرح آہستگی کے ساتھ پورے مغرب میں یہ طریقہ کار نافذ ہو گیا اور قانون کی شکل اختیار کر گیا۔ جب میں 24 سال پہلے کینیڈا آئی تھی تب بھی یہ طریقہ رائج تھا تب نہ تو جدید فون تھا نہ جدید ٹیلی ویژن‘ چونکہ میں اخبار و رسائل پڑھنے کی شوقین تھی تو مجھے وقت کے آگے بڑھ جانے اور نومبر کے مہینے میں پیچھے چلے جانے کے بارے میں آگاہی ہوئی‘ میں نے اپنے گھر کے کلاک کو ایک گھنٹہ آگے کر دیا‘ اتفاق دیکھیں کہ اسی دن میرے بیٹے کی یونیورسٹی میں اس کا پہلا امتحانی پیپر تھا‘ میں نے صبح وقت پر اس کو اٹھایا اور وہ تیار ہو کر یونیورسٹی چلا گیا‘ واپسی پر اس نے مجھ سے استفسار کیا کہ مجھے کیسے پتہ چلا کہ وقت آگے ہو گیا ہے‘ کیونکہ امتحانی ہال میں پہنچنے والے زیادہ تر طالب علم
ایک گھنٹہ لیٹ پہنچے تھے۔ دراصل مغربی ممالک میں اپنے آپ کو معلومات کے بارے میں آگاہ رکھنا ضروری ہوتا ہے‘ میرے اخبار کے مطالعہ کی عادت نے مجھے ایسا کرنے کا فائدہ پہنچایا‘ میں نے غور کیا کہ مارچ میں ہی دن بڑے ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور 6 بجے صبح تو اچھی خاصی روشنی ہوتی ہے بلکہ 6 بجے سورج طلوع ہو چکا ہوتا ہے ایسے میں 6 بجے کو 7 بجے بنا دیا جاتا ہے‘ طالب علم سکول پہنچ جاتے ہیں‘ دفاتر کھل جاتے ہیں‘ تمام زندگی متحرک ہو جاتی ہے اور سورج کی روشنی سے زیادہ فائدہ لیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے پاکستان میں ایک سال ایسا تھا جب بجلی کی روشنی کو کم کر کے شمسی توانائی سے فائدہ لینے کی کوشش کی گئی تھی اور ہمارے لوگ پورا سال یہی کہتے رہے کہ پرانا ٹائم یا نیا ٹائم اور ایسا ہونا ایک طرح سے مذاق بن گیا تھا اور بعد کے سالوں میں ایسے تجربات سے گریز کیا گیا۔ ہماری عوام اس نظریئے کے لئے آمادہ نہیں ہوئی لیکن مغربی اقوام نے نہ صرف اس نظریئے کو اپنایا‘ قانون بنایا بلکہ بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ کینیڈا جیسے ملک کے پاس جہاں دو سمندر ہیں اور نیاگرا فالز پر لگا ہوا گرڈ سٹیشن جو دنیا میں سب سے بڑا ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ کہلاتا ہے‘ ان کو ایسی کسی بجلی کی بچت کی ضرورت ہرگز نہیں ہے لیکن یہ دور اندیش اور مستقبل بین لوگ بچت کا ایک ذرہ بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ گھروں میں جو بجلی استعمال کرتے ہیں اور پانی استعمال کرتے ہیں ان کے بلز پورے پورے ٹیکس سمیت آتے ہیں‘ ہاں البتہ یہ سہولت قانون میں موجود ہے کہ اگر کوئی سفید پوش اپنا بل کسی ایک اماﺅنٹ پر فکس کروانا چاہے تو کروا سکتا ہے‘ اس کے علاوہ ہائی رائز بلڈنگز اور بیسمنٹ کے بجلی و پانی کے بل مالکان ادا کرتے ہیں۔ برطانیہ اور کینیڈا کے بعد امریکہ اور یورپ کے باقی ممالک نے تیزی کے ساتھ لائٹ سیونگ کے اس نظام قانون کو اپنایا‘ اب دنیا میں 70/72 ممالک میں یہ نظام مکمل تیاری اور اعتماد کے ساتھ جاری و ساری ہے اور ہر شہری اس وقت کا احترام کرتا ہے اور نیا ٹائم پرانا ٹائم ہمارے دیسی گھروں میں اب یہاں بھی سننے کو مل جاتا ہے لیکن گھر کے باہر تمام نظام زندگی قانون کے مطابق چلتا ہے جس سے روگردانی ہرگز نہیں کی جا سکتی۔